نقطہ نظر

بجٹ 2022ء میں ہونے والی باریک کارروائیوں کے بارے میں جانتے ہیں؟

بجٹ کامیاب تھا یا ناکام؟ اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہےاور عوام اسی بجٹ کو کامیاب مانتےہیں جس میں مہنگائی کم ہوجائے اور آمدن بڑھنےلگے

بجٹ پیش ہونے کے بعد مِلا جُلا عوامی ردِعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کچھ لوگ خوش ہیں اور کچھ عوامی مسائل کا حل پیش نہ کرنے پر نالاں ہیں۔ آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں اور حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

بجٹ 22ء-2021ء میں جس بات کا سب سے زیادہ شور ہے وہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہے۔ 850 سی سی تک کی گاڑیوں پر 2.5 فیصد وفاقی ایکسائیز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) ختم کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد کردیا گیا ہے۔ جس سے ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 33 ہزار روپے تک گاڑی سستی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی الیکٹرک گاڑیوں پر ایف ای ڈی صفر رکھی گئی ہے۔ یہ دعوے سُننے کی حد تک تو اچھے لگتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کروا کر عام آدمی تک اس کے ثمرات پہنچانا اصل کامیابی ہے۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ پچھلے 3 سالوں سے پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، لیکن کیوں بڑھ رہی ہیں؟ حکومت اور عوام دونوں ہی لاعلم ہیں۔

پہلے ڈالر کو وجہ بنایا گیا لیکن اب روپیہ تقریباً 9 ماہ سے مستحکم ہے، بلکہ ڈالر تو 168 سے کم ہوکر 152 تک بھی گِر گیا۔ مارکیٹ اصولوں کے مطابق تو گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آٹوموبائل کمپنیوں سے کوئی یہ پوچھنے والا بھی نہیں ہے کہ آپ کس اصول کے تحت قیمتیں بڑھا رہے ہیں۔

مسابقتی کمیشن پاکستان بھی ان پر ہاتھ ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔ انہی وجوہات کے سبب خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ حکومت کی جانب سے کم کی گئی قیمتوں کا فائدہ صحیح معنوں میں شاید عوام تک نہ پہنچ سکے کیونکہ جن گاڑیوں کی قیمتیں کم کی گئی ہیں ان میں سوزوکی آلٹو سب سے زیادہ بکنے والی گاڑی ہے۔

گزشتہ سہہ ماہی میں سوزوکی کا منافع باقی کار کمپنیوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی گاڑی تھی۔ گاڑی زیادہ بکنے کی وجہ سے کار کمپنیوں کو یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ صارف ذہنی طور پر اس قیمت پر گاڑی لینے کو تیار ہے۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آنے والے دنوں میں گاڑی کی قیمت کمپنی کی طرف سے بڑھائی جاسکتی ہے اور اسے دوبارہ پرانی قیمت تک لاکر اربوں روپے منافع کمایا جاسکتا ہے۔ یعنی کہ اصل فائدہ کار کمپنیاں اٹھا سکتی ہیں اور عام لوگ پھر مہنگی گاڑی لینے مجبور ہوسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ کچھ کار کمپنیوں نے پچھلے ماہ گاڑیوں کی قیمت بڑھانے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کوئی ان کمپنیوں سے یہ سوال بھی نہیں کرسکے گا کہ آپ نے قیمتیں کیوں اور کس اصول کے تحت بڑھائی ہیں؟ لہٰذا بجٹ میں گاڑیاں سستی ہونے کی خوشی ممکنہ طور پر زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گی۔ جہاں تک بات رہ گئی برقی گاڑیوں کی درآمد کی تو ویلیو ایڈڈ ٹیکس ختم کرنا بہترین عمل ہے۔

برقی گاڑیوں سے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسری طرف اس کی پروڈکشن ابھی تک پاکستان میں شروع نہیں ہوئی ہے۔ سیلز ٹیکس 17 فیصد سے ایک فیصد کرنا اچھا عمل ہے لیکن مستقبل قریب میں عوام کو اس سے فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

بجٹ میں اون منی پر گاڑیاں بیچنے پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس عمل کو سراہے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کا فائدہ حقیقی معنوں میں عوام تک پہنچے گا یا نہیں یہ اندازہ صرف اسی وقت ہوسکے گا جب ٹیکس کی شرح سامنے آئے گی۔

اگر 2 لاکھ اون پر 50 ہزار ٹیکس لگے گا تو ڈیڑھ لاکھ تو پھر بھی بچ جائے گا۔ ٹیکس شرح زیادہ ہونی چاہیے بلکہ جتنا اون مارکیٹ میں چل رہا ہو اس سے ایک لاکھ روپے زیادہ ٹیکس لاگو کیا جائے۔ اسی صورت میں اون منی پر قابو پایا جا سکے گا۔

مزید پڑھیے: اون یا پریمیم پر گاڑیوں کی فروخت: معیشت کو کتنا نقصان ہورہا ہے؟

پاکستان کی بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ بجٹ میں اعلانات تو ہوجاتے ہیں لیکن مافیاز اتنے مضبوط ہیں کہ وہ اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے۔ ماضی میں بھی اون منی پر ٹیکس لگانے کی بات کی جاتی رہی ہے لیکن عملی اقدامات دکھائی نہیں دیے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بیوروکریسی، سیاستدانوں اور طبقہ اشرافیہ کے لیے پیسہ کمانے کا یہ آسان ترین طریقہ ہے۔ اپنی نوکری بھی جاری رہتی ہے اور کاروبار بھی خودبخود چلتا رہتا ہے۔

آئیے اب ایک نظر 100 ارب روپے کی ٹیکس منصوبہ بندی پر ڈالتے ہیں۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ایک آسان طریقہ ڈھونڈا گیا اور 3 منٹ کی موبائل کال پر ایک روپیہ، میسج پر 10پیسے، اور ایک جی بی ڈیٹا پر 5 روپے ٹیکس لگایا گیا۔

شدید عوامی ردِعمل کے باعث حماد اظہر نے بجٹ کے فوری بعد انٹرنیٹ پر ٹیکس نہ لگانے کا عندیہ دے دیا لیکن تقریباً تمام حلقوں سے تنقید کے بعد وزیرِ خزانہ نے پوسٹ بجٹ تقریر میں اسے مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا جو قابل ستائش ہے۔

چلیں ان اقدامات سے عوام کو تو خوش کردیا گیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو 5.8 کھرب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کی جو امید دلائی گئی ہے اسے کیسے پورا کیا جائے گا؟ یاد رہے کہ اب وہ 100 ارب کسی اور مد میں ٹیکس لگا کر پورا کیا جائے گا۔ جن کا خیال ہے کہ عوام پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔

مبیّنہ طور پر تمباکو پر ٹیکس بڑھا کر اس خسارے کو پورا کیا جائے گا۔ لیکن صرف ایک شعبے پر ٹیکس لگا کر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکیں گے۔ حکومتی منصوبہ بندی بھی شک و شبہات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ موبائل کال پر ٹیکس کیا یہ سوچ کر لگایا گیا تھا کہ عوامی ردِعمل نہیں آئے گا۔ یا پھر آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کے کندھے پر بندوق رکھ کر چپکے سے دوبارہ یہ ٹیکس لگا دیا جائے گا۔ مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے اس کا علم چند دنوں میں ہوجائے گا۔

اس بجٹ کا تیسرا اہم نکتہ ترقیاتی بجٹ ہے، جس میں ریکارڈ اضافہ کیا گیا ہے۔ عوامی ترقیاتی پروگرام 'پی ایس ڈی پی' کے لیے 2 ہزار 123 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وفاق کے لیے 900 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو پچھلے سال کی نسبت 27.7 فیصد زیادہ ہیں۔ صوبوں کے لیے ایک ہزار 235 ارب روپے رکھے گئے ہیں جو پچھلے سال کی نسبت 45 فیصد زیادہ ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابھی پچھلے سال کے ترقیاتی بجٹ مکمل طور پر خرچ نہیں ہوسکے تو اس سال بجٹ میں مختص رقوم کس طرح استعمال کی جائیں گی؟ اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ حکومت کو 3 سال مکمل ہوچکے ہیں، چوتھے سال میں ترقیاتی کام کروائے جائیں گے اور 5ویں سال میں ان کی بنیاد پر ووٹ مانگے جائیں گے۔ یعنی کہ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو خوب نوازا جائے گا۔

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا، پچھلی حکومتوں میں بھی یہی حکمتِ عملی استعمال کی گئی تھی۔ اورنج لائن ٹرین اور میٹرو بس کے منصوبے ہمارے سامنے ہیں، ترقیاتی کام کروانا بہتر عمل ہے لیکن اس کا فائدہ اسی صورت میں ہوگا جب کرپشن کے الزامات نہ لگیں۔ انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ چھوٹی سی غلطی ساری محنت پر پانی پھیر سکتی ہے۔

آئندہ مالی سال کے لیے شرحِ نمو کا ہدف 4.8 فیصد طے کیا گیا ہے جبکہ رواں مالی سال میں شرح نمو 3.94 رپورٹ کی گئی ہے، جس پر ماہرین کی اکثریت کو اعتراض ہے۔ اسٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ نے بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں اس پر اعتراض اٹھایا تھا جس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ لیکن حکومتی دعوے پر یقین کرنے کے علاوہ کوئی آپشن بھی نہیں ہے۔ اگلے سال شرحِ نمو کا ہدف حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ شاید اسی لیے بجٹ حجم بڑا رکھا گیا ہے تاکہ بڑی صنعتوں میں بھی اضافہ ہو۔ جس سمت میں حکومت تیزی سے گامزن ہے اسے دیکھ کر امید کی کا جاسکتی ہے کہ مطلوبہ ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔

مہنگائی کی شرح 8 فیصد طے گئی ہے جبکہ موجودہ مہنگائی کی شرح 10.8 فیصد ہے۔ یہ ہدف کیسے حاصل کیا جائے گا اس پر مناسب حکمتِ عملی واضح کی جانی چاہیے۔ وزیرِ خزانہ صاحب خود فرما چکے ہیں کہ پاکستان فوڈ امپورٹر بن چکا ہے۔ جب دنیا میں چیزیں مہنگی ہوتی ہیں تو پاکستان میں بھی مہنگی ہوں گی۔

ایک سال میں ایسا کون سا معجزہ ہونے والا ہے کہ پاکستان آٹا، چینی، گندم، دودھ، پنیر درآمد کرنے کے بجائے برآمد کرے گا اور مہنگائی کو 8 فیصد تک لے آئے گا؟ جبکہ شوکت ترین صاحب یہ بھی بتا چکے ہیں کہ آنے والے دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے کا مزید اضافہ کرنا پڑسکتا ہے۔ جب پیٹرول مہنگا ہوگا تو ہر چیز مہنگی ہوگی۔ اس فارمولے کے تحت تو مہنگائی بڑھے گی نہ کہ کم ہوگی۔ چنانچہ مہنگائی کم کرنے کا حکومتی دعویٰ غیر حقیقی دکھائی دیتا ہے جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

حکومت نے فاٹا اور پاٹا میں صنعتیں لگانے ہر ٹیکس چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے جو حوصلہ افزا اقدام ہے۔ مگر اس سے پہلے صدارتی آرڈینینس کے ذریعے 64B, 64D, 64E کے تحت نئے بزنس کو ملنے والی 5 سالہ چھوٹ کو ختم کردیا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 64 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی تھی۔

سرمایہ کاروں نے حکومت پر یقین کرکے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی جسے ایک ہی جھٹکے میں ختم کردیا گیا جو نہ صرف مالی نقصان بلکہ اعتماد کھونے کا باعث بھی بنا۔ چنانچہ ٹیکس چھوٹ کی نئی اسکیموں پر بھروسہ کروا کر مزید سرمایہ نکلوانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اس امر پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ فاٹا میں کاروبار کی رجسٹریشن صرف کاغذوں کی حد تک نہ ہو۔ فیکٹریاں کراچی اور لاہور میں چل رہی ہوں اور ٹیکس چھوٹ لینے کے لیے ایڈریس فاٹا کا رجسٹرڈ کروا دیا جائے۔

مزدور کی کم سے کم تنخواہ 20 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہ پر کوئی مزید ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ چھوٹے کاروباروں کے لیے بلاسود 5 لاکھ روپے کے قرض دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سرمایہ کاروں کے لیے کچھ شعبوں میں ریلیف بھی دیا گیا ہے۔ اگر ٹیکسٹائل کے شعبے کی بات کی جائے تو مختلف اشیا کی درآمدات پر ریلیف سے تقریباً 12 ارب روپے کا ٹیکس نقصان برداشت کیا جائے گا۔

اسی طرح تعمیرات کے شعبے کو 11 ارب روپے کا کسٹم ڈیوٹی ریلیف ملے گا۔ کیمیکل کی درآمدات پر 6 ارب کا ریلیف دیا گیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس ریلیف سے صنعت کاری کو فروغ ملے گا، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا، نئی نوکریاں پیدا ہوں گی اور جتنا ریلیف دیا جا رہا ہے اس سے کئی گنا زیادہ فوائد حاصل ہوسکیں گے۔ ٹیکس آمدن ہدف 5.8 کھرب طے کیا گیا ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے نئے ٹیکسوں کی بھرمار کردی گئی ہے۔

صرف تنخواہوں پر ٹیکس بڑھانے سے انکار کرکے تقریباً تمام اشیا پر ٹیکس بڑھا دیا گیا یعنی کہ آئی ایم ایف کی ہر بات مان لی گئی ہے۔ بجلی کے بلوں پر مستقل ٹیکس بڑھانے کے لیے نیپرا آرڈینینس کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی شرط پر سر تسلیم خم کردیا گیا۔ شرحِ نمو میں اضافے کو سپورٹ کرنے کے لیے قرض کی ضرورت پڑے گی جو آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے ملے گا۔ یعنی کہ اس چنگل سے جلد آزادی ممکن نہیں ہے۔ اگلے ہفتے وزیراعظم اور آئی ایم ایف کی میٹنگ طے ہے۔ جس کے بعد ممکن ہے کہ منی بجٹ کی بھی صورتحال پیدا ہوجائے۔

یہ بجٹ کامیاب تھا یا ناکام؟ اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے نہ کہ معیشت دانوں کو، اور عوام اسی بجٹ کو کامیاب مانتے ہیں جس میں عام آدمی کے لیے مہنگائی کم ہوجائے اور آمدن بڑھنے لگے۔

پچھلے سال مہنگائی کا ہدف تقریباً 6 فیصد طے کیا گیا تھا جبکہ حقیقت میں مہنگائی تقریباً 11 فیصد تک بڑھی ہے۔ اس سال ہدف 8 فیصد طے کیا گیا ہے۔ اگر مناسب اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ مہنگائی 14 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ اگر حکومت مہنگائی کا جن قابو کرنے میں کامیاب ہوگئی تو شاید اس بجٹ کو کامیاب قرار دیا جاسکے گا۔


بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔