اب امریکا میں اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی طبی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لاکھوں امریکی شہریوں کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد مختلف طبی مسائل کے باعث طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا، حالانکہ کورونا وائرس سے قبل ان کو ان بیماریوں کا سامنا نہیں تھا۔
اس تحقیق میں امریکا میں لگ بھگ ایسے 20 لاکھ افراد کے ہیلتھ انشورنس ریکارڈز کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جن میں گزشتہ سال کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کے ایک ماہ یا اس سے زائد عرصے بعد 23 فیصد افراد کو نئی بیماریوں کے لیے علاج کرانا پڑا۔
ان میں تمام عمر کے افراد بشمول بچے بھی شامل تھے اور سب سے عام طبی مسائل میں اعصاب اور مسلز کی تکلیف، سانس لینے میں دشواری، کولیسٹرول کی شرح میں اضافہ، شدید ترین تھکاوٹ اور ہائی بلڈ پریشر شامل تھے۔
دیگر مسائل میں آنتوں کے مسائل، آدھے سر کا درد، جلدی مسائل، دل کے افعال میں خرابیااں، نیند کے مسائل اور ذہنی صحت کے مسائل جیسے بے چینی اور ڈپریشن قابل ذکر ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے بعد طبی مسائل ایسے افراد میں بھی عام تھے جو اس وائرس سے بیمار بھی نہیں ہوئے تھے یعنی ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔
تحقیق کے مطابق اگرچہ بیماری کو شکست دینے کے بعد مسائل کا سامنا کرنے والے لگ بھگ 50 فیصد افراد کو کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا، مگر 27 فیصد افراد ایسے تھے جن میں بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی، جبکہ 19 فیصد ایسے تھے جن میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہم بغیر علامات والے مریضوں میں لانگ کووڈ کی شرح دیکھ کر حیران رہ گئے۔
تحقیق میں جن 19 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی ان میں 50 فیصد سے زیادہ بغیرعلامات والے تھے۔
40 فیصد میں علامات ظاہر ہوئی تھی مگر انہیں ہسپتال داخل نہیں ہونا تھا، جبکہ صرف 5 فیصد کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔
محققین نے بتایا کہ بغیر علامات والے افراد میں لانگ کووڈ کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں جو بہت اہم ریافت ہے، جس سے مریضوں اور ڈاکٹروں کو کورونا وائرس کے مابعد اثرات کے امکان پر غور کرنے میں مدد مل سکے گی۔