پاکستان

نیویارک اپارٹمنٹ تحقیقات: آصف زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور

عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کی 5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض 28 جولائی تک کی ضمانت منظور کی۔
|

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی نیویارک اپارٹمنٹ کی تحقیقات کے معاملے پر ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی۔

عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ڈویژن بینچ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی نیویارک اپارٹمنٹ انکوائری میں ضمانت قبل از گرفتاری سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

سابق صدر آصف علی زرداری ہائیکورٹ کے گیٹ سے کمرہ عدالت تک پیدل پہنچے جہاں ان کے ہمراہ رخسانہ بنگش اور سحر کامران بھی موجود تھیں۔

آصف علی زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: ضمانت کی درخواست پر آصف زرداری طلب

دوران سماعت آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار عدالت میں موجود ہیں۔

کمرہ عدالت میں آصف علی زرداری جب روسٹرم کی جانب بڑھنے لگے تو عدالت نے انہیں بیٹھے رہنے کا کہا اور بعد ازاں عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری کی 5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض 28 جولائی تک کی ضمانت منظور کرلی۔

کیس میں عدالت نے نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب بھی طلب کرلیا۔

پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا ہے، شیری رحمٰن

بعد ازاں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے کہا کہ آصف علی زرداری علالت کے باوجود عدالت میں آئے ہیں، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی حربہ پیپلز پارٹی کی سیاست کو ضرب نہیں لگا سکتا، اپوزیشن کی سیاست ہم نے ڈٹ کر کی ہے اور ہم صفحہ اول میں رہیں گے‘۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی رہنما نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ ’آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات نئی بات نہیں، 1990 سے انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے تاہم آج تک کوئی کیس ثابت نہیں ہوسکا‘۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: آصف زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

ان کا کہنا تھا کہ ’پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو جیل میں بند کرنے سے یہ جماعت کمزور نہیں ہوگی، اس پر جتنا جبر ہوگا یہ اتنا ابھرے گی‘۔

بلاول بھٹو زرداری کے امریکا کے دورے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ان کا نجی دورہ ہے اسے سیاست کے ساتھ نہ جوڑیں‘۔

نیویارک اپارٹمنٹ کی تحقیقات کا معاملہ

خیال رہے کہ انسداد بدعنوانی کے ادارے نے 15 جون کو سابق صدر کو ایک سوالنامے کے ساتھ طلبی کا نوٹس جاری کیا تھا جس میں ان سے اپارٹمنٹ کی تفصیلات پوچھی گئی تھیں۔

نیب کے نوٹس میں امریکی ریاست نیو یارک میں ایک اپارٹمنٹ کی مبینہ ملکیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے نیب کا نوٹس ملنے پر فاروق ایچ نائیک کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتار کے لیے رجوع کیا تھا۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ درخواست گزار نوٹس میں بتائے گئے کہ اپارٹمنٹ سمیت نیویارک میں کسی جائیداد کی ملکیت نہیں رکھتا۔

پٹیشن میں مزید کہا گیا کہ نیب نے آصف علی زرداری کو مختلف معاملات میں طلبی کے مختلف نوٹسز جاری کیے ہیں تا کہ ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا جاسکے، ان تمام نوٹسز کو اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت مختلف فورمز پر ختم کردیا گیا۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ آصف زرداری مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کی اسیری نے طبی صورتحال مزید خراب کی ہے۔

آصف زرداری کی درخواست کے مطابق سابق صدر اس وقت ڈاکٹروں کی خصوصی دیکھ بھال میں ہیں اور وہ ان کی صحت کی نگرانی کررہے ہیں۔

پٹیشن میں چیئرمین نیب، ڈائریکٹر جنرل اور 3 دیگر افراد کو فریق بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: 'آصف زرداری جعلی اکاؤنٹس کیس': نیب 33 ارب روپے وصول کر چکا ہے، فواد چوہدری

واضح رہے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جون 2018 میں الیکشن کمیشن میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں کاغذات نامزدگی میں نیویارک کے اپارٹمنٹ کی ملکیت چھپانے پر ان کی نااہلی کی استدعا کی گئی تھی۔

مذکورہ درخواست خرم شیر زمان نے دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ آصف علی زرداری کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قواعد کے مطابق سرکاری عہدہ رکھنے سے نااہل قرار دینا چاہیے کیوں کہ میری رائے میں وہ صادق اور امین نہیں رہے۔

تاہم جنوری 2019 میں خرم شیر زمان نے مذکورہ درخواست واپس لے لی تھی اور کہا تھا کہ انہیں ایسے شواہد ملے ہیں جنہیں صرف اعلیٰ فورمز پر ہی پیش کیا جاسکتا ہے۔

این سی او سی کی ملک میں کورونا کی مختلف اقسام موجود ہونے کی تصدیق

’شہنشاہ جذبات‘ دلیپ کمار انتقال کرگئے

ٹیکس اور ڈیوٹی میں کمی کے باوجود گاڑیوں کی قیمتیں کم کیوں نہ ہوسکیں؟