DesignForLiving

بلڈنگ اِن گرین: پائیدار تعمیرات کی منصوبہ بندی

پائیداری عارضی نہیں، یہ ایک لازمی امر ہے جس کو ہر اُس چیز سے گزرنا پڑتا ہے جو تعمیر ہوتی ہے۔

پاکستان کی تعمیراتی صنعت جیسے جیسے ترقی کر رہی ہے، ویسے ہی ہم تعمیراتی سامان میں آنے والی تبدیلیوں اور اس سے بڑھ کر ان کے استعمال کے طریقوں میں آنے والی تبدیلیوں کے گواہ بن رہے ہیں۔

ایک دہائی قبل تعمیرات کے لیے عمومی اشیا ہی استعمال ہوتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے سیکھا کہ کسی عمارت کی تعمیر کے وقت صرف اس کی لاگت کا ہی خیال نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس میں استعمال ہونے والے تعمیراتی سامان اور اس کے ہم پر ہونے والے اثرات کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔ آج کی دنیا میں ماحول دوست اور پائیدار تعمیرات بہت ضروری ہیں خاص طور پر سے جب پانی جیسے قدرتی وسائل کی قلت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ تو آخر کس طرح ہم ایک ہی وقت میں پائیدار تعمیراتی سامان بھی استعمال کریں اور توانائی اور پانی کی بچت بھی کریں؟

1- شیشے کا درست استعمال توانائی کی بچت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کھڑکیوں سے جذب ہونے والی حرارت عمارت کا اندرونی درجہ حرارت بڑھانے کا بنیادی سبب ہوتی ہے۔ شمال کی جانب سے آنے والی روشنی نسبتاً ہلکی جبکہ جنوب کی جانب سے آنے والی روشنی سخت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہم عمارت کے جنوب کی جانب وہ شیشہ استعمال کرتے ہیں جو کم سے کم حرارت جذب کرے اور شمال کی جانب وہ شیشہ استعمال کرتے ہیں جو کم کم سے حرارت روکے۔ یوں بجلی کا بل کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دوہری دیواریں اور چھتیں بھی اندرونی درجہ حرارت کو کم کرنے میں معاون ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ایئر کنڈیشنر بھی کم استعمال ہوتے ہیں۔

2- عمارتوں میں روشنی کا انتظام بھی حرارت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ہم پہلے روایتی بلب استعمال کرتے تھے جس کے بعد ہم نے اینرجی سیور بلب استعمال کرنا شروع کردیے۔ دفاتر اور رہائشی عمارتوں میں اکثر ایل ای ڈی لائٹیں ہی استعمال ہوتی ہیں۔ ان لائٹوں سے پیدا ہونے والی حرارت بہت کم ہوتی ہے جس سے ایئر کنڈیشنگ کی لاگت میں کمی آتی ہے۔

3- ٹائلوں کے متعارف ہونے سے تعمیراتی صنعت پر بہت فرق پڑا ہے۔ اچھے تیار کنندگان کی جانب سے اعلیٰ معیار کی ایسی ٹائلیں بنائی جارہی ہیں کہ جو سنگ مرمر کی طرح نظر آتی ہیں اور بہت دلکش ڈیزائن میں دستیاب ہیں۔ یہ ٹائلیں سنگ مرمر کے استعمال کو کم کرسکتی ہیں۔

4- انورٹر ایئر کنڈیشنگ سسٹمز بھی پیسے کی بچت کا باعث بنتے ہیں۔ ایک بار جب وہ مطلوبہ درجہ حرارت تک پہنچ جاتے ہیں تو یہ فین موڈ پر چلے جاتے ہیں جس سے توانائی کی بچت ہوتی ہے۔

5- لکڑی مہنگی بھی ہوتی جارہی ہے اور اب اس کی دستیابی بھی مشکل ہورہی ہے کیونکہ ہم مزید درخت نہیں کاٹ سکتے۔ تاہم اب ایسی کئی اشیا متعارف ہوچکی ہیں جو کہ لکڑی سے ملتی جلتی ہی ہوتی ہیں اور کھڑکیوں، جافریوں، ریلنگ اور یہاں تک کہ دروازوں کے لیے بھی استعمال ہوتی ہیں۔ یہ مختلف ریزن، پلاسٹک اور دیگر اجزا کو ملا کر تیار کی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ مہنگی ہوتی ہیں لیکن طویل مدت میں یہ بہتر رہتی ہیں کیونکہ انہیں مرمت کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ عام لکڑی کی طرح سخت موسم میں خراب بھی نہیں ہوتی۔ لکڑی کے متبادل کے طور پر اَن پلاسٹیسائزڈ پولی وینائل کلورائیڈ (یو پی سی) بھی مقبول ہورہا ہے اور کھڑکیوں کی تیاری میں اس کا خاصا استعمال کیا جارہا ہے۔

6- ہمیں پانی کی قلت کا سامنا ہے اور ہم اسے مختلف طریقوں سے دوبارہ قابل استعمال بنارہے ہیں۔ گرے واٹر (سِنک اور شاور میں استعمال ہونے والا پانی) نہ صرف تزئین و آرائش کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک میں اسے مناسب ٹریٹمٹ کے بعد پینے کے قابل بھی بنایا جاتا ہے۔ بلیک واٹر (ڈبلیو سیز میں استعمال ہونے والا پانی) جسے سیوریج کے پانی میں شمار کیا جاتا ہے اسے بھی ٹریٹمنٹ پلانٹس پر صاف کرنے کے بعد نہ صرف باغات، سڑکوں، گھروں اور دیگر عمارتوں میں استعمال کیا جاتا ہے بلکہ کچھ ترقی پذیر ممالک میں تو اسے بھی پینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ بارش کے پانی کو بھی جمع کرکے انہی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ زمینی پانی کو بھی آر او پلانٹس میں ٹریٹ کرکے گھریلو استعمال اور تزئین و آرائش کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ باتھ رومز اور باورچی خانوں کی تنصیبات میں پانی کے کم استعمال کو یقینی بنانے کے لیے نئی ٹیکنالوجی تیار کی جارہی ہیں۔ سِنک/بیسن میں سنسر لگے ہوئے سادہ سے نلکوں کے استعمال سے پانی کے ضیاع کو 40 سے 70 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

عادل کیرائی، شراکت دار حبیب فدا علی۔

adil@habibfidaali.com*