DesignForLiving

بلڈنگ اِن گرین: ماحول دوست رجحانات

گذشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں ماحول دوست تعمیراتی اور عمارتوں کی تزئین و آرائش کے رجحانات سامنے آئے ہیں۔

کسی بھی پرانی عمارت کے دوبارہ استعمال کا مطلب اس کی بحالی ہوتا ہے نہ کہ اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کرنا۔ بحالی کے کام میں اخراجات بھی کم آتے ہیں اور اس سے ایک پرانی عمارت میں نئی جان آجاتی ہے۔

اکثر پرانی عمارتیں بہت مضبوط ہوتی ہیں اور انہیں کسی بھی نئے کام کے لیے آسانی سے ایک نئی شکل دی جاسکتی ہے۔

اس کی مثالیں کراچی میں موہٹہ پیلیس میوزیم اور نسروان جی بلڈنگ (جسے انڈس ویلی اسکول آف آرٹس اینڈ آرکیٹیکچر کی عمارت کے لیے ایک ایک اینٹ کرکے صدر سے کلفٹن منقتل کیا گیا) اور لاہور میں فوڈ اسٹریٹ اور حویلی ریسٹورنٹ ہے۔


ماڈیولر کنسٹرکشن کا رجحان آہستہ آہستہ مقبولیت حاصل کررہا ہے کیونکہ اس طرح بڑی رہائشی اور تجارتی عمارتیں بہت کم وقت میں تیار ہوجاتی ہیں جس سے وقت، پیسے اور توانائی کی بچت ہوتی ہے۔

پہلے سے تیار شدہ یونٹ تعمیراتی مقام سے دور تیار کیے جاتے ہیں اور پھر انہیں تعمیراتی مقام پر لاکر جوڑ دیا جاتا ہے۔ کمپنیاں اب غیر استعمال شدہ اشیا کو ریسائکل کر رہی ہیں جس سے چیزوں کو ضائع ہونے سے بچایا جارہا ہے۔

ان فوائد کی وجہ سے ماڈیلور کنسٹرکشن ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے اور یقیناً آنے والے وقت میں یہ مزید مقبولیت حاصل کرے گا۔ یہ پنجاب میں کم آمدن والے افراد کے لیے گھروں کی تیاری میں بھی استعمال ہورہا ہے۔


ریسائکلنگ کوئی نیا تصور نہیں ہے لیکن لیکن زوال پذیر معیشت کی وجہ سے لوگ اس کی جانب آرے ہیں کیونکہ یہ بچت کا باعث ہے۔

اس وجہ سے ڈیزائنر اب پرانی چیزوں سے منفرد اور خاص اشیا تیار کررہے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے چیزوں کے ضیاع میں کمی آئے گی اور ان نئی چیزوں کی طلب بھی کم ہوگی جن کو بالکل نئے سرے سے تیار کیا جاتا ہے۔

پائیدار چیزوں جیسے بید، لکڑی اور بنے ہوئے کپڑے سے تیار اشیا کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور اس کا اظہار ان دکانوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے ہورہا ہے جہاں یہ اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔

(ارورا کے ستمبر تا اکتوبر 2020ء ایڈیشن سے اقتباس)

فرح رضوان انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر میں لیکچرار اور شراکت دار ہیں۔

farah-k76@hotmail.com*