دنیا

افغانستان سے رپورٹ: حکومتی خلا کے سبب کابل کے عام شہری پریشان

کابل ایسا نوگوایریا ہرگز معلوم نہیں ہوتا جس کے بارے میں ہم مغربی میڈیا میں سنتے رہے ہیں۔

یہ اس سلسلے کی دوسری تحریر ہے۔ اس مضمون میں پیش کیے گئے تمام مناظر ڈان نیوز کے نمائندے عادل شاہزیب کے پروگرام اور ان کی رپورٹنگ سے لیے گئے ہیں جو اس وقت طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں موجود ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی تحریر پڑھنے کیلئے **یہاں کلک کریں۔**

ہماری اگلی منزل کابل ہے، وہ شہر جو بالآخر افغانستان کے گورننس سسٹم کے اعصابی مرکز کے طور پر کام کرے گا جس کا فیصلہ نئے حکمران کریں گے۔

جلال آباد سے دارالحکومت تک کا سفر عام طور پر تقریباً تین گھنٹے پر محیط ہوتا ہے تاہم راستے میں کچھ گاڑیوں کی خرابی کی وجہ سے یہ سفر طویل ہو جاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ طالبان کے ٹریفک وارڈن خراب ہونے والی ان گاڑیوں کی مدد کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: افغانستان کا آنکھوں دیکھا حال: مہنگائی کا رونا، عوام کو مستقبل کی پریشانی

اس کے علاوہ یہ سفر عام طور پر ہموار ہوتا ہے اور سفر کے پہلے نصف حصے کے دوران ہمیں وہاں موجود واحد طالبان چیک پوسٹ پر نہیں روکا گیا۔

سڑک کنارے ہمیں کئی پرانی کاریں اور بکتر بند گاڑیاں نظر آئیں جو اس ملک کی مسلسل جنگ کے سبب خون میں لت پت گزشتہ چار دہائیوں کی باقیات کی عکاسی کر رہی تھیں۔

دوران سفر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ چاروں اطراف سے بڑے بڑے کٹے ہوئے پہاڑ ہمارے ساتھ سفر کررہے تھے، کہا جاتا ہے کہ ان چوٹیوں کی وجہ سے افغانستان کو فتح کرنے کے لیے حملہ کرنے والی کوئی بھی طاقت آج تک کامیاب نہیں ہوئی۔

کچھ مزید پہاڑوں کو عبور کرنے کے بعد آخرکار ہم کابل پہنچ گئے۔

یہ بھی پڑھیں: کابل ایئرپورٹ کے باہر دو دھماکوں میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 85 افراد ہلاک

یہ ایسا نوگوایریا ہرگز معلوم نہیں ہوتا جس کے بارے میں ہم مغربی میڈیا میں سنتے رہے ہیں۔ کاروبار کھلے ہیں، ٹریفک کسی دوسرے جنوبی ایشیائی شہر کی افراتفری سے میل کھاتا ہے اور لوگ (بشمول خواتین) سڑکوں پر اپنے کاروبار زندگی کی جانب رواں دواں ہیں، اگرچہ یہ تعداد معمول سے کچھ کم ہے۔

اس سب کے باوجود سب کچھ یقیناً ٹھیک نہیں ہے۔

شہر کے ایک بازار میں دکاندار شوخ رنگ کے خواتین کے کپڑے بیچنے والے اسٹالز کے پاس بیٹھے ہیں۔ کچھ دکانداروں نے ہمیں بتایا کہ طالبان کے قبضے کے گزشتہ 10 سے 12 دنوں میں کاروبار پر جمود طاری ہو گیا ہے۔ ہمارے کیمرے کو دیکھ کر مزید کچھ تاجر ہمارے پاس آئے اور درخواست کی کہ ہم ان کی مشکلات کو آگے تک پہنچائیں۔

شہر کے مرکزی تجارتی علاقے 'شہر نو' میں تقریباً دو درجن لوگ اے ٹی ایم کے باہر کھڑے نظر آئے۔ وہ گھر کے لیے ضروری اشیائے خورونوش خریدنے کے سلسلے میں پیسے نکالنا چاہتے تھے لیکن مشینوں میں نقد رقم نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی موجود بینک افغانستان کے مرکزی بینک کی طرح بند ہے۔

رحمت اللہ نے اپنا اے ٹی ایم کارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ اسے استعمال کرنے سے قاصر ہیں، 'میرے پاس نقد رقم ختم ہوچکی ہے، اور اے ٹی ایم میں چار دن سے پیسے نہیں ہیں۔ مجھے گندم کا آٹا، چینی، چاول اور دیگر چیزیں خریدنی ہیں'، بینک کے عہدیداروں نے ان سمیت دیگر افراد کو بتایا ہے کہ رقم جلد پہنچ جائے گی لیکن ان کا انتظار بدستور جاری ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان کا سیاسی مستقبل کیسا ہوگا؟

ہم ایک بار پھر پھر سڑک پر آ گئے اور جب ڈرائیور نے مقامی ریڈیو لگایا تو وہاں طبلے کی دھن پر ایک گانا بجنے لگا۔ سابق افغان بادشاہ غازی امان اللہ خان کی ایک بڑی تصویر دور سے ایک عمارت پر آویزاں نظر آ رہی تھی۔

وزارت اطلاعات و ثقافت میں ہم نے طالبان کے کنٹرول کے بعد ملک کے موجودہ بادشاہوں میں سے ایک سے افغانستان میں صحافیوں کی حفاظت اور آزادی صحافت کے حوالے سے عالمی خدشات کے بارے میں سوالات کیے۔

طالبان کے انفارمیشن اینڈ کلچر کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار مفتی انعام اللہ سمنگانی کا کہنا ہے کہ یہ خدشات بڑی حد تک بے بنیاد ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ طالبان کو ان کی طرف سے کی جانے والی تنقید سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور اس سلسلے میں اسلام کے بنیادی تصورات اور ملک دشمن ایجنڈا ہی واحد ایسی چیزیں ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔

وسطی کابل کے دیگر مقامات پر طالبان کئی فوجی گاڑیوں میں پل باغِ اوومی کے بازار کے قریب سڑک پر گشت کرتے نظر آئے اور ان کا منفرد سفید جھنڈا گاڑی کے سامنے لہراتا نظر آ رہا تھا۔

امن و امان برقرار ہے اور اس وقت خونریزی کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی، لیکن بازار سے چند میٹر کے فاصلے پر موجود بڑا لڑکیوں کا اسکول خالی پڑا ہے جہاں عموماً سینکڑوں طالبعلم تعلیم کے حصول کے لیے آتے تھے۔ کلاسوں پر کوئی اعلانیہ پابندی نہیں ہے لیکن شہر کی غیریقینی فضا کو دیکھتے ہوئے لڑکیوں اور لڑکوں نے گھر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سفارتکاروں نے جولائی کے وسط میں طالبان کے ممکنہ قبضے کا انتباہ بھیجا تھا، رپورٹ

یہ اسکول کتنی جلدی اور کتنے عرصے میں دوبارہ روزمرہ کی کلاسوں سے آباد ہوگا اس کا فیصلہ اس جامع حکومت کے قیام سے ہوگا جس کا طالبان نے وعدہ کیا ہے۔ تب تک کابل کے باشندے انتظار کریں گے اور وہ بہتر کل کے لیے پرامید ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر جمعرات کی رات کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے حملوں سے پہلے تیار کی گئی تھی۔

ملکی سطح پر موبائل فونز کی تیاری، درآمد سے بڑھ گئی

پاک-افغان سرحد پر صورتحال ہمارے کنٹرول میں ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

قائد اعظم کی تصویر کے سامنے فوٹو شوٹ کروانے والے لڑکے کو گرفتار نہیں کیا، پولیس