صحت

کووڈ کے متعدد مریضوں کو صحتیابی کے ایک سال بعد علامات کا سامنا ہونے کا انکشاف

تحقیق میں شامل کووڈ کو شکست دینے والے 12 سو میں سے لگ بھگ 50 فیصد کو بیماری کے ایک سال بعد بھی مختلف علامات کا سامنا تھا۔

کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد مریضوں کو ایک سال بعد بھی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

یہ بات چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

خیال رہے کہ کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

کورونا وائرس کی وبا سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور اس نئی تحقیق میں وہاں اس بیماری کا سامنا کرنے والے افراد کا جائزہ لیا تھا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے 12 سو میں سے لگ بھگ 50 فیصد کو بیماری کے ایک سال بعد بھی مختلف علامات کا سامنا تھا۔

بیجنگ اور ووہان کے ہسپتالوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے چین کے صوبے ہوبئی کے مریضوں پر توجہ مرکوز کی تھی جس کے شہر ووہان میں 2019 کے آخر میں کووڈ کے اولین کیسز سامنے آئے تھے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے 20 فیصد مریض 12 ماہ بعد بھی مختلف علامات جیسے تھکاوٹ یا مسلز کی کمزوری کا سامنا کر رہے تھے۔

اسی طرح 17 فیصد کو نیند کے مسائل کا سامنا تھا جبکہ 11 فیصد کو بالوں سے محرومی کی علامت نے پریشان کیا۔

محققین نے بتایا کہ اگرچہ متعدد مریض صحتیاب ہوگئے ہیں مگر کچھ کی علامات کا تسلسل برقرار رہا بالخصوص ان افراد کو جو کوود سے بہت زیادہ بیمار ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے کچھ مریض ایک سال سے زائد عرصے بعد بھی مکمل صحتیاب نہیں ہوپاتے اور ایسے افراد کے لیے طویل المعیاد طبی نگہداشت کی سہولیات کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے ایسے مریضوں پر اب تک سب سے بڑے سروے تھا جو ہسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے۔

تحقیق میں کووڈ کو شکست دینے والے 1276 افراد کو شامل کیا گیا تھا جو جنوری سے مئی 2020 کے دوران ووہان کے ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے تھے۔

تحقیق میں شامل مریضوں کی اوسط عمر 59 سال تھی اور ان کی صحتیابی کے 6 ماہ اور 12 ماہ مکمل ہونے پر طبی معائنے، لیبارٹری ٹیسٹ اور 6 منٹ کی چہل قدمی کے ٹیسٹ ک ذریعے صھت کی جانچ پڑتال کی گئی۔

ایک سال مکمل ہونے پر 6 ماہ کے مقابلے میں بہت کم افراد نے علامات کے تسلسل کو رپورٹ کیا، جبکہ 88 فیصد بیماری سے قبل کی ملازمتوں پر واپس لوٹ گئے۔

تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر یہ مریض ووہان کے ان افراد کے مقابلے میں کم صحت مند ثابت ہوئے جن کو کووڈ 19 کا سامنا نہیں ہوا تھا۔

محققین نے بتایا کہ ہر 10 میں سے 3 افرد کو ایک سال بعد بھی سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ ان کو کسی حد تک ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کا بھی سامنا تھا۔

4 فیصد مریضوں کو سونگھنے کے مسائل کا سامنا ریکوری کے ایک سال بعد بھی تھا۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ایک سال بعد بیماری کی متعدل شدت کا سامنا کرنے والے 20 سے 30 فیصد مریضوں کو خون میں آکسیجن گزرنے کے مسئلے کا بھی سامنا تھا جبکہ وینٹی لیٹر سپورٹ پر رہنے والے 54 فیصد مریضوں کو اس مسئلے کا سامنا تھا۔

محققین نے کہا کہ کووڈ کے طویل المعیاد نتائج کو سمجھنے کے لیے زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک مکمل طور پر نفسیاتی علامات جیسے ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے جن کی شرح 6 ماہ کے مقابلے میں ایک سال بعد کچھ زیادہ تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس سے ہونے والی بیماری کے حیاتیاتی عمعل کا حصہ بھی ہوسکتا ہے یا جسمانی مدافعتی ردعمل اس کے پیچھے ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئے۔

چین کی ایک نئی کووڈ ویکسین سنگین بیماری سے بچانے کیلئے 82 فیصد تک مؤثر

ویکسینیشن کے مقابلے میں کووڈ سے بلڈ کلاٹس کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، تحقیق

کورونا کی قسم ڈیلٹا کے خلاف روسی ویکسین کی افادیت کا ڈیٹا سامنے آگیا