پاکستان

ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا گیا تو مفاہمت کیلئے تیار ہیں، نواز شریف

ہم غیر ضروری طور پر لڑائی نہیں کرنا چاہتے،میری لڑنے کی نیت نہیں تھی لیکن مجھے اس راستے پر چلنے کے لیے مجبور کیا گیا، سابق وزیراعظم

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے واضح کیا ہے کہ اگر 'مفاہمتی' پالیسی کے ذریعے ملک میں قانون کی بالادستی قائم ہوتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عداوت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی کے ساہیوال ڈویژن کے اجلاس میں ویڈیو کے لنک کے ذریعے خطاب میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کہا کہ 'ہم غیر ضروری طور پر لڑائی نہیں کرنا چاہتے، اگر مفاہمت کے ذریعے آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوتی ہے تو (قوتوں کے خلاف) لڑائی ضرورت نہیں ہوگی، میری لڑنے کی نیت نہیں تھی لیکن مجھے اس راستے پر چلنے کے لیے مجبور کیا گیا'۔

نواز شریف نے اجلاس کے دوران واضح کیا کہ جب سے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جانب سے پارٹی میں مفاہمت کے بیانیے کی وکالت کی جارہی ہے، وہ اپنے چھوٹے بھائی کی خواہش کی مخالفت نہیں کرتے بشرطیکہ اگر (مفاہمت) کے نتیجے میں ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو۔

مسلم لیگ (ن) میں دو بیانیوں کے حوالے سے کافی بحث ہو رہی ہے، ایک نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کا بیانیہ ہے جبکہ دوسرا شہباز شریف کا مفاہمت کا بیانیہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا معاملہ، حمزہ شہباز نے مریم نواز کے مؤقف کی مخالفت کردی

پارٹی کے اکثر رہنما نواز شریف کے بیانیے کی حمایت کرتے ہوئے شہباز شریف کی حمایت کرنے والوں کو شرمندہ کرتے ہیں۔

حال ہی میں شہباز شریف اور پارٹی کے چند دیگر رہنماؤں پر بالواسطہ تنقید کرنے اور انہیں شرمندہ کرنے پر (ن) لیگ کی جانب سے شیخوپورا کے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا، جاوید لطیف نے الزام لگایا تھا کہ یہ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے 'اسائمنٹ' پر کام کر رہے ہیں۔

ایک پارٹی رہنما نے ڈان کو بتایا کہ نواز شریف کے بیان میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے پیغام دیا گیا کہ اگر یقین دہانی کرائی جائے کہ آئندہ عام انتخابات آزاد اور منصفانہ ہوں گے اور جو بھی منتخب ہوگا اسے بغیر کسی مداخلت کے کام کرنے کی اجازت دی جائے گی تو لندن سے ایک سال قبل اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو لڑائی انہوں نے شروع کی تھی ممکنہ طور پر ختم ہوجائے گی۔

اجلاس کے دوران اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نواز شریف نے ذکر کیا کہ 2018 کے انتخابات 'چوری' کرنے کے لیے کس طرح رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) کو بٹھایا گیا، سیاستدانوں کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا، عدلیہ پر کنٹرول اور میڈیا کا منہ بند کروایا گیا۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف نے قومی حکومت نہیں، قومی مفاہمت کی بات کی تھی، مریم نواز

نواز شریف، جو نومبر 2019 سے علاج کے غرض سے لندن میں مقیم ہیں، نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم کا دفتر اتنا بدنام ہوچکا ہے کہ عزت نفس رکھنے والا کوئی شخص یہاں نہیں رہنا چاہتا۔

انہوں نے کہا کہ 'جو عوامی نمائندے عوام کی فلاح کے لیے جدوجہد کرتے ہیں انہیں ایک منٹ میں گھر بھیج دیا جاتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرا سیاسی کریئر ختم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں انہیں اب یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ اس میں ناکام ہو چکے ہیں، جبکہ اگر مجھے اقامہ (پانامہ پیپرز کیس) پر گھر نہ بھیجا جاتا تو آج پاکستان ترقی کر رہا ہوتا'۔

نواز شریف نے وزیر اعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی خراب معاشی پالیسیوں کی وجہ مہنگائی اور قیمتوں میں اضافہ عروج پر ہے جس سے عوام کی جینا اجیرن ہوچکا ہے، یہ شخص (وزیر اعظم) کنٹینر پر کھڑے ہوکر کرپشن پر لیکچر دیتا تھا اور آج یہ خود کرپٹ لوگوں کے درمیان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کے 'قومی حکومت' کے بیان نے سیاسی بحث چھیڑ دی

انہوں نے کہا کہ اس شخص نے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے لیے کرپٹ افراد کا تقرر کیا جس کے نتیجے میں منصوبے میں پیشرفت سست ہوگئی۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت میں روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے 64 روپے کی کمی آئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم، کرپشن کے اپنے معیار کے مطابق کتنے کرپٹ ہیں۔

اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ان کے والد نے اداروں کے 'کچھ لوگوں' پر تنقید کی ہے، اس تنقید سے ان کے غصے کی نہیں بلکہ نظریے کی عکاسی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ ہر قیمت پر ووٹ کی عزت کو یقینی بنائے گی۔

اجلاس میں احسن اقبال، رانا ثنااللہ، حمزہ شہباز، اویس لغاری اور عظمیٰ بخاری نے بھی شرکت کی۔

جوڑے کو ہراساں کرنے کا کیس: عثمان مرزا سمیت 7 ملزمان پر فرد جرم عائد

برطانوی عدالت کا حکم نامہ شہباز شریف سے متعلق نہیں، شہزاد اکبر

عمر شریف علاج کے لیے بذریعہ ایئر ایمبولینس امریکا روانہ