نقطہ نظر

پینڈورا پیپرز اور ہمارا غیر محفوظ مستقبل

اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے اقتدار سے باہر موجود لوگوں کے ساتھ معاملات طے ہیں۔ کرپٹ لوگ اس مرتبہ بھی بچ نکلیں گے۔

پاکستان میں احتساب کبھی بھی مؤثر ثابت نہیں ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ اسے پری ونٹیشن آف کرپشن ایکٹ، 1947ء کی صورت میں لاگو کیا گیا اور اس کے بعد بارہا یہ عمل دہرایا گیا لیکن اس نے کبھی کام نہ کیا۔

پاکستان ایک سنگین صورتحال سے دوچار ہے، اس صورتحال کے حوالے سے ہربرٹ فیلڈمین نے 1967ء میں لکھا کہ ’یہ ایک پوشیدہ بیماری ہے جس کی ابتدائی مراحل میں تشخیص اور اسے ختم کرنا بہت مشکل ہے‘۔

پاکستان میں اس حوالے سے پہلا کام 1959ء میں ایوب خان کے دور میں ہوا۔ اس وقت کلاس ون، کلاس ٹو اور کلاس تھری کے 95 ہزار سرکاری ملازمین پر کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے۔ کلاس ون کے 2 ہزار 800 ملازمین میں سے صرف 2 فیصد، کلاس ٹو کے ساڑھے 5 ہزار ملازمین میں سے صرف ایک فیصد اور کلاس تھری کے 87 ہزار ملازمین میں سے صرف 55 افراد کو سزا سنائی گئی۔ اس کے نتیجے میں فرار کی ایک ایسی روایت قائم ہوئی جو عوامی زندگی میں عمومی حیثیت حاصل کرگئی۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی فہرست میں پاکستان کبھی بھی ابتدائی 20، 50 یا 100 ممالک میں شامل نہیں ہوا اور نہ ہی شاید کبھی شامل ہوسکے گا۔ آخری مرتبہ اس فہرست میں 180 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 124 تھا جو یہاں کے تباہ حال نظام کا عکاس ہے۔

مزید پڑھیے: پینڈورا پیپرز: اسے کسی حقیقی تبدیلی کی علامت کیوں نہیں سمجھنا چاہیے؟

پانامہ اور پینڈورا پیپرز انٹرنیشنل کنسورشئیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹ (آئی سی آئی جے) کی محنت کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک باہمی تعاون کا گروہ ہے جو آف شور مالی معاملات پر کام کرتا ہے۔

2017ء میں جاری ہونے والے پانامہ پیپرز 80 ممالک کے 400 سے زائد صحافیوں کی محنت کا نتیجہ تھے۔ ان کے درمیان رابطے کا کام آئی سی آئی جے اور اس کے شراکت دار دی مک کلیچی واشنگٹن بیورو اور دی میامی ہیرالڈ نے کیا تھا۔ ان صحافیوں کی جانب سے پانامہ پیپرز میں ’50 سے زائد ممالک میں 140 سیاستدانوں سے منسوب آف شور کمپنیوں کو سامنے لایا گیا تھا‘ جس کے نتیجے میں انہیں اس سال پیولٹزر انعام بھی دیا گیا۔ اس کے بعد سے انہوں نے اپنا دائرہ کار مزید وسیع کردیا تھا۔ حالیہ دنوں میں منظرِعام پر آنے والے پینڈورا پیپرز میں 117 ممالک کے 600 سے زائد صحافیوں نے حصہ لیا تھا۔

اس مشکوک دولت کے حوالے سے معلومات ’ٹرائیڈنٹ ٹرسٹ جیسی 14 آف شور قانونی فرم اور خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ دستاویزات سے حاصل کی گئی۔ ٹرائیڈنٹ ٹرسٹ آف شور خدمات فراہم کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے اداروں میں سے ایک ہے جس کے دفاتر برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی)، ماریشئیس، سنگاپور اور رازداری رکھنے والی دیگر جگہوں بشمول امریکی ریاست جنوبی ڈکوٹا میں ہیں‘۔

ان پیپرز میں سب سے نمایاں نام روسی صدر پیوٹن کے قریب ترین کاروباری افراد، چیک اور وینزویلن افراد اور کینیا کے بانی جومو کین یاتا کے بیٹے کا نام بھی شامل ہے جو کینیا کے صدر بھی ہیں۔

اس فہرست میں سب سے زیادہ افسوس اردن کے شاہ عبد اللہ دوم کا نام دیکھ کر ہوا۔ ان کی والدہ برطانوی شہری ٹونی گارڈنر (جن کا نام بعد میں ملکہ مونا الحسین) ہوگیا تھا، انہوں نے جب شاہ حسین سے 1961ء میں شادی کی تو اس شادی کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ ان کی کوئی اولاد ہاشمی تخت پر نہیں بیٹھے گی۔ تاہم 1999ء میں شاہ حسین کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی امریکی کوششوں سے شاہ حسین نے اس شرط کو واپس لے لیا اور عبداللہ کو تخت کے لیے نامزد کردیا۔

مزید پڑھیے: پینڈورا پیپرز اور پاکستانی

اردن کے شہری یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے بادشاہ کو امریکا اور برطانیہ میں تقریباً 10 کروڑ ڈالر کے 14 پُرتعیش مکانات خریدنے کی کیا ضرورت تھی؟ شاید شاہ عبداللہ دوم کو یہ خواب آتے ہوں گے کہ انہیں قتل یا پھر ملک بدر کردیا جائے گا۔ ان کے دادا شاہ عبد اللہ اوّل کو 1951ء میں قتل کردیا گیا تھا اور عراق کے شاہ فیصل کو بھی اسی قسم کے خونی انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ شاہ ایران کا انتقال قاہرہ میں ہوا اور اسپین کے بادشاہ جون کارلوس کو عرب حکمرانوں کی جانب سے کک بیک لینے کے الزامات پر تخت چھوڑنا پڑا۔

یہاں تک کہ نیدرلینڈ کے پرنس کنسورٹ برنارڈ (موجودہ ڈچ بادشاہ ولیم الیگزینڈر کے دادا) نے لاک ہیڈ کارپوریشن سے 10 لاکھ ڈالر رشوت لینے کا اعتراف کیا۔ وہ یہ کہتے ہوئے انتقال کرگئے کہ ’میں نے قبول کرلیا ہے کہ لاک ہیڈ کا لفظ میری قبر پر کندہ کیا جائے گا‘۔ انہوں نے ایک ناجائز بیٹی کا بھی اعتراف کیا۔ (وہ اس کارنامے میں تنہا نہیں ہیں)۔

جب پانامہ پیپرز جاری ہوئے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف مقدمے کی بنیاد بنایا۔ پینڈورا پیپرز بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں تاہم ان کا ہدف پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل افراد ہوں گے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ محفوظ ہیں اور ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالے گا۔

حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کے نام پینڈورا پیپرز میں آئے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرے۔ اس کے نتیجے میں سزائیں اور پیسے کی ریکوری ہوگی یا نہیں اس پر بحث ممکن ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے اقتدار سے باہر موجود لوگوں کے ساتھ معاملات طے ہیں۔ صرف لفظی گولہ باری ہوگی اور کرپٹ لوگ اس مرتبہ بھی بچ نکلیں گے۔

مزید پڑھیے: پینڈورا پیپرز میں شامل عالمی رہنماؤں پر ایک نظر

فیلڈمین نے کرپشن کو ایک ایسی بُرائی کے طور پر بیان کیا ہے ’جس میں نہ ہی دینے والا اور نہ ہی وصول کرنے والا کچھ کہنے کے لیے تیار ہوتا ہے، سوائے کسی ایسی صورتحال میں کہ جہاں دھوکا دینا فائدہ مند ہو‘۔

پانامہ اور پینڈورا پیپرز نے پہلے سے ہی بدنام لوگوں کو مزید بدنام کردیا ہے اور آف شور ہیونز کے بیان کردہ تقدس کو بھی ختم کردیا ہے۔ جن صارفین نے رازداری خریدی تھی ان کے خریدے گئے افراد نے ہی انہیں دھوکا دیا۔ جس ٹیکنالوجی نے ان کے جرائم کو چھپانا تھا اس نے ہی انہیں بے نقاب کردیا۔

تاہم ان سب چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کرپٹ لوگ ہمیشہ نظام میں کوئی نہ کوئی نیا سقم ڈھونڈ لیتے ہیں۔ یہ سقم منحرف لوگوں نے ہی حکومتوں کے لیے شکیل دیے ہوتے ہیں۔


یہ مضمون 07 اکتوبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ایف ایس اعجازالدین

ایف ایس اعجاز الدین ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بہت عمدہ لکھتے ہیں،آپ عرصہ دراز سے ڈان سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔