صحت

کووڈ کے 50 فیصد سے زیادہ مریضوں کو طویل المعیاد علامات کا سامنا ہونے کا انکشاف

بیماری سے سنبھل جانے کے کئی مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر 2 میں سے ایک مریض کو لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے۔

یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

ابتدائی بیماری سے سنبھل جانے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

پین اسٹیٹ کالج آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ دسمبر 2019 سے اب تک دنیا بھر میں 23 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ افراد میں کووڈ کی تشخیص ہوچکی ہے اور ان میں سے 50 فیصد سے زیادہ کو بیماری کو شکست دینے کے بعد بھی مہینوں تک مختلف علامات یا لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے۔

بیماری کے دوران کووڈ کے بیشتر مریضوں کو مختلف علامات جیسے تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، سینے میں تکلیف، جوڑوں کی سوجن اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے۔

اب تک چند تحقیقی رپورٹس میں کورونا وائرس سے ریکور ہونے کے بعد مریضوں کی صحت کی جانچ پڑتال کی گئی ہے تاکہ بیماری کے مختصر اور طویل المعیاد اثرات کو بہتر طریقے سے سمجھا جاسکے۔

اس تحقیق میں ماہرین نے اس حوالے سے دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس کی جانچ پڑتال کی۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ بالغ افراد اور بچوں سب کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک مختلف طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق میں 2 لاکھ 50 ہزار 351 ویکسینیشن نہ کرانے والے بالغ افراد اور بچوں کے ڈیٹا پر مشتمل 57 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا جن میں دسمبر 2019 سے مارچ 2021 کے دوران کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔

ان رپورٹس میں جن افراد کو شامل کیا گیا تھا ان میں سے 79 فیصد بیماری کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے اور مریضوں کی اوسط عمر 54 سال تھی جبکہ اکثریت مردوں کی ہے۔

محققین نے کووڈ کو شکست دینے کے بعد ان مریضوں کی صحت کا جائزہ 3 مراحل میں لیا۔

پہلے صحتیابی کے ایک ماہ بعد ، دوسری بار 2 سے 5 ماہ کے دوران اور تیسری بار 6 ماہ یا اس سے زیادہ مہینوں کے بعد۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے افراد کو بیماری سے جڑے متعدد طبی مسائل کا تجربہ ہوتا ہے، جن سے مریض کی شخصیت، نقل و حمل یا اعضا کے نظام متاثر ہوتے ہیں۔

مجموعی طور پر ہر 2 میں سے ایک کو کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا تجربہ ہوتا ہے اور یہ شرح ایک ماہ سے 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے تک لگ بھگ کافی حد تک مستحکم رہتی ہے۔

محققین کے مطابق 50 فیصد سے زیادہ مریضوں نے جسمانی وزن میں کمی، تھکاوٹ، بخار اور تکلیف کو رپورٹ کیا۔

ہر 5 میں سے ایک کی نقل و حرکت محدود ہوئی جبکہ ہر 4 میں سے ایک کو توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا۔

اسی طرح ہر 3 میں سے ایک نے مختلف ذہنی مسائل، ہر 10 میں سے 6 نے پھیپھڑوں کے مسائل بالخصوص سانس لینے میں مشکلات کو رپورٹ کیا۔

مریضوں کی جانب سے سینے میں تکلیف اور دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کی جانب سے رپورٹ کیا جبکہ ہر 5 میں سے ایک کو بالوں کے گرنے یا جلد پر خارش کی شکایت ہوئی۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے تصدیق ہوتی ہے کہ کووڈ 19 کے صحت پر مرتب ہونے والے مضر اثرات طویل عرصے تک برقرار رہ سکتے ہیں۔

لانگ کووڈ کا باعث بننے والی وجوہات کو اب تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا ہے اور ماہرین کے خیال میں یہ طویل المعیاد علامات مدافعتی نظام کے زیادہ متحرک ہونے، ری انفیکشن یا آٹو اینٹی باڈیز کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔

ویکسینز کورونا وائرس کی بیشتر اقسام سے تحفظ فراہم کرنے کیلئے مؤثر

کورونا کی قسم ڈیلٹا بچوں کو زیادہ بیمار کرنے کا باعث نہیں، تحقیق

ڈبلیو ایچ او کا کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو ویکسین کی تیسری خوراک دینے کا مشورہ