صحت

دنیا میں 2050 تک بینائی سے محروم افراد کی تعداد تین گنا ہونے کا امکان

پاکستان میں 80 فیصد لوگوں کو اندھے پن سے بچایا جاسکتا ہے، کنٹری ڈائریکٹر سائٹ سیورز پاکستان

دنیا میں مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے کے باعث 2050 تک بینائی سے محروم افراد کی تعداد تین گنا ہونے کا خدشہ ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ’یوم بصارت‘ منایا جارہا ہے تاکہ لوگوں میں آنکھوں کی بینائی کے بارے میں آگاہی پیدا کی جاسکے اور اس بیماری سے متعلق حقائق کو سامنے لایا جا سکے۔

اس موقع پر سائٹ سیورز پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر منَزہ گیلانی نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان میں 80 فیصد لوگوں کو اندھے پن سے بچایا جاسکتا ہے اور اگر فوری طور پر اس بیماری کو روکنے کے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو لاکھوں لوگ اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اندھا پن قابل علاج مرض ہے لیکن آنکھوں کے علاج کی سہولیات نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے اس مرض پر قابو پانے کی کوششوں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں آنکھوں کے خشک ہونے کی بیماری میں اضافہ

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پوری دنیا میں 2.2 ارب سے زیادہ افراد آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں متاثرہ افراد کی تعداد ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے جبکہ متاثرہ افراد میں سے نصف کا مرض قابل علاج ہے۔

پوری دنیا میں نابینا افراد کی تعداد 2050 تک 11 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جس کے سالانہ نقصان کا تخمینہ 410.7 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

منزہ گیلانی نے کہا کہ پاکستان میں آنکھوں کے علاج کی سہولیات کو عالمی معیار کے مطابق بنانا ہوگا تاکہ اندھے پن کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

ان کا کہنا کہ سائٹ سیورز نے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر آنکھوں کی بینائی کے مختلف منصوبوں پرکام کیا ہے اوران منصوبوں کے ذریعے ملک میں آنکھوں کے علاج کی سہولیات میں بہتری آئے گی۔

مزید پڑھیں: آنکھوں کے سنگین امراض کی 9 اہم علامات

پاکستان میں یوم بصارت کے موقع پر سائٹ سیورز نے ملک کے آئین کا بریل میں ترجمہ کیا ہے تاکہ بینائی سے محروم افراد بھی آئین کو پڑھ سکیں۔

پاکستان میں آنکھوں کے علاج کی راہ میں درپیش رکاوٹوں میں غربت، سہولیات کا صرف شہری علاقوں تک محدود ہونا اور معذور افراد کو مکمل رسائی نہ ملنا شامل ہیں۔

خواتین میں موتیے کی بیماری کی شرح مردوں کی نسبت 63 فیصد ہے جبکہ اس کے علاج کی سہولت حاصل کرنے کے لیے خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کم ہے۔