کاروبار

اسٹیٹ بینک کے اقدامات کا گاڑیوں کی فنانسنگ، درآمد پر فوری اثر نہ پڑنے کا امکان

مرکزی بینک کے فیصلے کا اثر آئندہ سال سے پہلے نہیں پڑے گا کیونکہ تمام ماڈلز اگلے تین سے چار ماہ کے لیے فروخت ہوچکے ہیں، کار ڈیلر

چونکہ اسمبلرز کے پاس پہلے سے آئندہ 4 سے 5 ماہ تک کے آرڈرز بُک ہیں اس لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تیزی سے بڑھتی ہوئی آٹو فنانسنگ پر بریک لگانے اور گاڑیوں کی درآمد روکنے کے فیصلے کا گاڑیوں کی فروخت پر فوری اثر پڑنے کا کوئی امکان نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آٹو فنانسنگ گاڑیوں کی فروخت کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے کیونکہ ملک میں مجموعی فروخت میں اس کا حصہ 30 سے 40 فیصد ہے۔

آٹو فنانسنگ کو چلانے میں ایک اہم عنصر کم کائی بور ریٹ (بینچ مارک لینڈنگ ریٹ) ہے جس کا بڑھتا ہوا رجحان گاڑیوں کی فروخت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسٹیٹ بینک نے درآمدی گاڑیوں کیلئے قرضوں کے حصول میں سختی کردی

رواں سال 31 اگست تک آٹو فنانسنگ بڑھ کر 326 ارب روپے ریکارڈ کی گئی جو سالانہ بنیاد پر 47 فیصد زیادہ ہے۔

اگست کے آخر میں 6 ماہ کا کائی بور ریٹ 7.54 فیصد رہا اور اس وقت سے 15 اکتوبر تک یہ 62 بی پی ایس بڑھ کر 8.35 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔

ایک کورین آٹو اسمبلر نے کہا کہ مرکزی بینک کے فیصلے کا اثر آئندہ سال سے پہلے نہیں پڑے گا کیونکہ فی الحال تمام ماڈلز اگلے تین سے چار ماہ کے لیے فروخت ہوچکے ہیں۔

ایک ڈیلر نے بتایا کہ ٹویوٹا یارس دو سے تین ماہ میں ڈیلیور کی جا رہی ہے جبکہ ٹویوٹا فارچیونر اور کرولا ماڈلز اگر آج بک کروائے جائیں تو فراہمی میں چھ ماہ لگتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اون یا پریمیم پر گاڑیوں کی فروخت: معیشت کو کتنا نقصان ہورہا ہے؟

انہوں نے کہا کہ پہلے سے بک کردہ گاڑیوں کی جاری ڈلیوری کے پیش نظر صورتحال اب تک نارمل ہے، مارکیٹ کچھ مہینوں کے بعد اثر دیکھے گی۔

ایک اور ڈیلر نے دعویٰ کیا کہ اسٹیٹ بینک کے فیصلے کے بعد ہونڈا گاڑیوں کی بکنگ کم از کم 50 فیصد سست ہو گئی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہونڈا بی آر-وی اور ہونڈا سوک کی ترسیل کا وقت آئندہ برس دسمبر اور فروری ہے۔

ہونڈا ایسپائر کی ترسیل کا وقت آئندہ برس مارچ ہے جبکہ دوسرے سٹی ماڈلز اگر آج بک ہو ئے تو جنوری تک صارفین کے حوالے کر دیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: آٹو فنانسنگ 2 کھرب 73 ارب روپے کی 'بلند ترین' سطح تک پہنچ گئی

پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق نے کہا کہ ’چونکہ تمام ماڈلز بک ہوچکے ہیں اور فنانسنگ پہلے ہی منظور ہوچکی ہے اس لیے میرے خیال میں تین ماہ بعد گاڑیوں کی مارکیٹ اور اسمبلرز پر اسٹیٹ بینک کے فیصلے کا اثر پڑے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ نئی فنانسنگ کو روک دیا گیا ہے اور اس کے اثرات تین ماہ کے بعد قابل عمل ہوں گے۔

دوسری جانب عارف حبیب لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ، بیک لاگ اور کم شرح سود کی وجہ سے آٹو اسمبلرز مالی سال 22 کے دوران قلیل مدتی میں فروخت کے حجم میں کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں کریں گے کیونکہ گاڑیوں کی ترسیل کا موجودہ وقت تین سے چھ ماہ کے درمیان ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں آٹو فنانسنگ کو روکنے کے لیے اسٹیٹ بینک کا فیصلہ مالی سال 23 کے آغاز سے فروخت پر اثر انداز ہونا شروع کرے گا‘۔

خیبرپختونخوا میں مفت، لازمی تعلیم کے قانون پر عملدرآمد نہ ہوسکا

منی لانڈرنگ کیس میں طلبی، نورا فتیحی کا وضاحتی بیان سامنے آگیا

میئر لاہور کو 8 ماہ بعد اپنا عہدہ سنبھالنے کی اجازت