صحت

کووڈ 19 ویکسینیشن سے دوبارہ بیماری کا خطرہ کم ہونے کا انکشاف

کورونا وائرس ویکسینز سے بیماری کے سنگین اثرات سے تحفظ تو ملتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ری انفیکشن کا امکان بھی کم ہوجاتا ہے۔

کورونا وائرس ویکسینز سے بیماری کے سنگین اثرات سے تحفظ تو ملتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ری انفیکشن کا امکان بھی کم ہوجاتا ہے۔

یہ بات اس حوالے سے ہونے والی مختلف تحقیقی رپورٹس میں سامنے آئی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں کووڈ 19 کیسز میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کی تعداد بھی بڑھی ہے جن کی جانب سے دوسری یا تیسری مرتبہ بیماری سے متاثر ہونے کو رپورٹ کیا گیا۔

تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ جو لوگ ویکسینیشن نہیں کراتے ان میں اوسطاً ہر 16 ماہ میں کووڈ 19 کی دوسری مرتبہ تشخیص کا امکان ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق ہم اب جانتے ہیں کہ کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد حاصل ہونے والی قدرتی مدافعت وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہے۔

ڈنمارک میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ 65 سال سے کم عمر افراد کو بیماری کے 6 ماہ بعد ری انفیکشن سے 80 فیصد جبکہ 65 سال سے زائد عمر کے افراد کو محض 47 فیصد تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

کورونا کی قسم ڈیلٹا کی آمد کے بعد صورتحال زیادہ پیچیدہ ہوگئی۔

امپرئیل کالج لندن کے امیونولوجی پروفیسر ڈینی آلٹمین نے بتایا کہ طبی عملے میں جو تحقیق ہم نے کی ہے اس میں ہم نے پہلے بیمار ہونے والے اور ویکسینیشن کرانے والوں میں علامات والی بیماری کو دریافت کیا، ہمارے خیال میں یہ تعداد ہمارے اندازوں سے زیادہ عام ہے۔

برطانیہ کے ادارے او این ایس کی جانب سے 6 اکتوبر 2021 کو جاری ڈیٹا میں بتایا گیا کہ جولائی 2020 سے ستمبر 2021 کے دوران جو 20 ہزار 262 برطانوی شہری کووڈ 19 سے متاثر ہوئے ان میں سے 296 دوسری مرتبہ اس بیماری کے شکار ہوئے۔

مگر ری انفیکشن کا خطرہ مئی 2021 کے بعد سے زیادہ بڑھ گیا ہے جب برطانیہ میں کورونا کی قسم ڈیلٹا کو غلبہ حاصل ہوا۔

امریکا میں مختلف ریاستوں کی جانب سے ری انفیکشنز کی شرح کو ٹریک اور رپورٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ڈیلٹا سے کووڈ سے دوبارہ متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔

اوکلاہاما، جہاں کی آبادی 39 لاکھ ہے، وہاں ستمبر میں 5229 افراد میں دوبارہ کووڈ کی تشخیص ہوئی اور یہ شرح مئی کے بعد سے 350 فیصد زیادہ بڑھ گئی ہے۔

امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) نے ری انفیکشن کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق سابقہ تشخیص کے 90 دن یا اس کے بعد دوبارہ لیبارٹری سے تصدیق کیس کو ری انفیکشن تصور کیا جائے گا۔

ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نسرین الوان نے بتایا کہ برطانیہ میں کووڈ کے کیسز کی شرح میں اضافے کے ساتھ ہم میں سے بیشتر ان بچوں اور بالغ افراد سے واقف ہیں جو دوبارہ اس بیماری کے شکار ہوئے، کئی کیسز میں تو ری انفیکشن کا دورانیہ پہلی بیماری کے کچھ عرصے بعد کا ہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم اب بھی ری انفیکشن کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے ہیں۔

اس سوال کے جواب کے لیے یالے یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے پروفیسر جیفری ٹاؤنسینڈ اور ان کے ساتھیوں نے تصدیق شدہ ری انفیکشن کیسز اور دیگر کورونا وائرسز کے امیونولوجیکل ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔

تمام تر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ وقت کے ساتھ کووڈ 19 سے دوبارہ بیمار ہونے کے خطرے کا ماڈل تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانیسٹ مائیکروبی میں شائع ہوئے جس میں عندیہ دیا گیا کہ مدافعتی تحفظ گھٹنے کے بعد ری انفیکشن کا امکان بڑھتا ہے بالخصوص اس وقت جب آس پاس کیسز کی شرح زیادہ ہو۔

پروفیسر جیفری نے بتایا کہ اگر کووڈ کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیا جائے تو یعنی فیس ماسک یا سماجی دوری کا خیال نہ رکھا جائے، کوئی ویکسین نہ ہو تو ہمیں 3 ماہ سے 5 سال کے دوران دوبارہ بیمار ہونے کی توقع کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی عمر کے گروپ میں یہ بیماری پھیلنے لگے تو یہ ہر عمر کے گروپس میں پھیل سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اگر آپ کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تو آپ کو ویکسینز کا استعمال کرنا چاہیے، چاہے آپ کووڈ 19 سے متاثر ہی کیوں نہ ہو پھر بھی ویکسینیشن کرائیں کیونکہ اس سے تحفظ کا عرصہ بڑھ جائے گا۔

برطانیہ میں کورونا کی ڈیلٹا قسم کے بعد ‘ڈیلٹا پلس’ کا پھیلاؤ جاری

عالمی ادارہِ صحت کورونا سے تحفظ کی گولیوں کو سستا رکھنے کا خواہاں

فرانسیسی کمپنی کی تجرباتی کووڈ 19 ویکسین ایسٹرازینیکا جتنی مؤثر قرار