پاکستان

ٹی ایل پی مذاکرات سے متعلق حکومتی پریس کانفرنس تاخیر کا شکار

وزیر خارجہ، اسپیکر قومی اسمبلی، علی محمد خان کی مفتی منیب الرحمٰن کے ہمراہ پریس کانفرنس صبح 11 بج کر 15 منٹ پر ہونی تھی، رپورٹ
| |

وفاقی حکومت کی جانب سے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے اعلان کردہ کانفرنس تاخیر کا شکار ہے۔

پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سے جاری بیان کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور رکن قومی اسمبلی علی محمد خان کی مفتی منیب الرحمٰن کے ہمراہ پریس کانفرنس صبح 11 بج کر 15 منٹ پر ہونی تھی۔

تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے مذاکراتی کمیٹی کے اراکین کو مشاورت کے لیے طلب کیا تھا جس کے بعد پریس کانفرنس کی جانی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کی نئی ٹیم کے کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات

حالانکہ پریس کانفرنس تاخیر کا شکار تھی لیکن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پی آئی ڈی میں صحافیوں کو کہتے رہے کہ پریس کانفرنس کچھ دیر میں شروع ہوجائے گی۔

بعدازاں پی آئی ڈی کی جانب سے نیوز کانفرنس کے لیے سہ پہر 3 بجکر 15 منٹ کے وقت کا اعلان کیا گیا تاہم کچھ ہی لمحے بعد اس میں بھی تبدیلی کرتے ہوئے 2:45 پر نیوز کانفرنس کا اعلان کردیا گیا۔

وزیر آباد میں ٹی ایل پی کے دھرنے کا تیسرا روز

دوسری جانب کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان اور ہمدردوں کا تیسرے روز بھی وزیر آباد میں دھرنا جاری ہے جہاں انہوں نے اللہ والا چوک میں پڑاؤ ڈالا ہے۔

گوجرانوالہ شہر میں آج بھی انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر بند ہے جبکہ شہر میں ٹرین سروس بھی معطل ہے جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دوسری جانب چناب ٹول پلازہ سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر پنجاب رینجرز نے ریڈ لائن لگا رکھی ہے اور ساتھ ہی نوٹس آویزاں کر رکھا ہے جس پر مظاہرین کو آگے بڑھنے سے خبردار کیا ہے۔

ٹی ایل پی کے ساتھ دوبارہ مذاکرات

خیال رہے کہ حکومت نے کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ ہفتے کے روز دوبارہ مذاکرات شروع کیے تھے، اس سلسلے میں تقریباً تمام سینئر ترین اور بااثر رہنماؤں کو راولپنڈی اور اسلام آباد لایا گیا تھا۔

کالعدم تنظیم کے احتجاجی مارچ کے خلاف تمام تر اقدامات اٹھانے کے باوجود حکومت نے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور تنظیم کے زیر حراست سینئر رہنماؤں کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب اسلام آباد پہنچایا۔

اس کے علاوہ کوششیں دوبارہ شروع کرنے کے بعد کابینہ اراکین نے بھی اپنا لہجہ نرم کرلیا جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیراعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کو تنظیم کے خلاف بیانات دینے سے روک دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: علما کی ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں تعاون کی پیش کش

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سعد رضوی اور ٹی ایل پی کی شوریٰ کے تین سینئر ارکان مولانا شفیق امینی، انجینئر حفیظ اللہ اور پیر عنایت الحق کو براہ راست مذاکرات کے لیے لاہور سے اسلام آباد لایا گیا تھا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور رکن قومی اسمبلی علی محمد خان پر مشتمل نئی حکومتی ٹیم نے ٹی ایل پی رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔

ٹی ایل پی احتجاج کا پس منظر

گزشتہ برس میں فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر کو معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔

تاہم مطالبات کی عدم منظوری پر تحریک لبیک نے 16 فروری کو اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تھا، بعدازاں مہلت ختم ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر تحریک لبیک نے حکومت کو 20 اپریل کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

تاہم 12 اپریل کو سعد رضوی کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے بعد جس پر ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعدازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی جس کے پیشِ نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔

حافظ سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔

قبل ازیں یکم اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی تاہم لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا۔

بعدازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بینچ کے حکم پر عمل درآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بینچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔

تاہم 19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو کالعدم جماعت نے اپنے قائد حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔

بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

23 اکتوبر کو لاہور میں کالعدم ٹی ایل پی کے قائدین اور کارکنوں کے پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

بعدازاں 28 اکتوبر کو بھی مریدکے اور سادھوکے کے قریب ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 4 پولیس اہلکار جاں بحق اور 263 زخمی ہوگئے تھے۔

حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات ہوئے لیکن دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔

حکومت واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ وہ پاکستان میں فرانسیسی سفارت خانے کو بند کرنے کے ٹی ایل پی کے مطالبے کو پورا نہیں کر سکتی، ساتھ ہی انکشاف کیا تھا کہ ملک میں فرانس کا کوئی سفیر نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ ٹی ایل پی کو عسکریت پسند تنظیم قرار دیا جائے گا اور اسے کچل دیا جائے گا جیسا کہ اس طرح کے دیگر گروپس کو ختم کر دیا گیا ہے۔

تاہم 30 اکتوبر کو ایک مرتبہ پھر ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔

برطانیہ کی فرانس کو ماہی گیروں کے تنازع پر یورپی یونین کو متحرک کرنے کی دھمکی

مالی سال 22-2021: جولائی تا اکتوبر میں ہدف سے 232 ارب روپے زائد محصولات وصول

میکسیکو میں قدیم مایا تہذیب کی محفوظ شدہ کشتی دریافت