پاکستان

نواز حکومت کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں عسکری قیادت سے معاونت نہیں ملی، عرفان صدیقی

عسکری قیادت مذاکرات کے لیے یکسو نہیں تھی، آپریشن ضرب عضب شروع کرنے سے قبل حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا، سابق معاون خصوصی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت عسکری قیادت مذاکرات کے لیے یکسو نہیں تھی اور ہمیں اس سلسلے میں عسکری قیادت سے کوئی معاونت نہیں ملی۔

اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ نواز شریف 2013 کے انتخابات سے قبل ہی امن و امان کے قیام کے ساتھ ساتھ توانائی کے بحران کے حل کے لیے ذہن بنا چکے تھے۔

مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر سینیٹ میں اپوزیشن کی حکومت پر تنقید

انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات اول و آخر نواز شریف کا اپنا فیصلہ تھا، حکومت بننے کے بعد جولائی-اگست میں وہ بہت کام کرتے رہے کہ کس طرح اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 9ستمبر کو وزیراعظم نے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں تمام جماعتیں تھیں، عسکری قیادت بھی تھی، اس وقت آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی صاحب تھے اور عسکری قیادت نے بریفنگ دی، عمران خان سمیت تمام جماعتوں کے سربراہ اس اجلاس میں شریک تھے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ ہم نے آپریشن یا مار دھاڑ نہیں کرنی اور خصوصاً عمران خان کا زوردار موقف تھا کہ ہمیں امن کے ذریعے آگے بڑھنا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت عسکری قیادت یکسو نہیں تھی بلکہ کافی لوگ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کی تقریروں، اتفاق رائے پیدا کرنے اور مذاکراتی کمیٹیوں کی تشکیل سے قبل عسکری قیادت ایک فیصلہ کر چکی تھی کہ ہم نے آپریشن کرنا ہے اور انہیں لگتا تھا کہ میاں صاحب شاید اس آپریشن کا اعلان کرنے والے ہیں حالانکہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا پاکستان، ٹی ٹی پی مذاکرات پر ’خاص ردعمل‘ دینے سے انکار

طالبان سے مذاکرات کے لیے قائم سابقہ حکومتی کمیٹی کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ ہمیں مذاکراتی عمل کے دوران عسکری قیادت سے کوئی معاونت اور مشاورت نہیں ملی، ان کا ہم سے کوئی رابطہ نہ تھا جبکہ عسکری قیادت مذاکراتی عمل کے حوالے سے خوش گوار یا ہمدردانہ تاثر نہیں رکھتی تھی۔

جب ان سے اس مذاکراتی عمل میں طالبان کی سنجیدگی کے حوالے سے پوچھا گیا تو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے معاون خصوصی نے کہا کہ طالبان میں سنجیدگی نظر نہیں آئی، ان کی قیادت میں بھی یکسوئی نہیں تھی، ہم شوریٰ سے بات کررہے تھے لیکن خود شوریٰ ہم سے کہتی تھی کہ بہت سے لوگ ہماری کمان سے باہر ہیں، وہ واردات کر دیتے ہیں جس کے بعد ہم پر ذمے داری آ جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس پر ان کی شوریٰ سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے لوگوں سے لاتعلقی کا اعلان اور ان کی مذمت کریں لیکن وہ یہ بھی نہیں کرتے تھے، اس لیے مذاکرات ہچکولے کھاتے رہے اور بات آگے نہیں بڑھ پائی۔

مزید پڑھیں: حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہوگیاہے، فواد چوہدری

عرفان صدیقی نے کہا کہ مذاکراتی عمل کے دوران ایک مرحلہ ایسا آ گیا کہ خالد خراسانی نے کئی سال قبل اغوا کیے گئے 23 ایف سی اہلکار عین مذاکرات کے دنوں میں شہید کردیے، ان کی یہ کوشش تھی کہ یہ بات آگے نہ بڑھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہمیں اچانک پتہ چلا کہ ضرب عضب شروع ہو گیا ہے، میاں صاحب نے ایک چھوٹی سی میٹنگ بلائی جس میں چوہدری نثار اور مجھ سمیت سینئر قیادت بھی شریک تھی اور ہم نے آپریشن شروع ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ہم بھی یہ محسوس کررہے تھے کہ شاید اس کےعلاوہ کوئی چارہ نہیں ہے لیکن ہمیں اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔

معروف کالم نگار نے مزید کہا کہ اس کے بعد نواز شریف نے چوہدری نثار سے کہا کہ اسمبلی میں جا کر اس بارے میں آگاہ کریں کیونکہ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ فیصلہ ہمارے بغیر ہوا ہے تاہم چوہدری نثار نے معذرت کرتے ہوئے وزیراعظم کو تجویز دی کہ وہ اس معاملے پر خود بات کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، معید یوسف

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد نواز شریف اسمبلی گئے اور مذاکراتی عمل کا پس منظر بیان کرنے کے بعد آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مذاکراتی ماحول اور سابقہ حکومت کے دور کے ماحول میں بڑا فرق یہ ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے تمام اسٹیک ہولڈرز اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر یہ قدم اٹھایا تھا۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں خفیہ طور پر یا بند دروازوں کے پیچھے کوئی بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ ہو کیا رہا ہے، قومی اسمبلی یہاں تک کہ سرکاری ارکان کو نہیں پتہ کہ کون کس سے مذاکرات کررہا ہے، کن شرائط پر کررہا ہے، آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے اور اس کی وجہ سے انتشار کی کیفیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت میں افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت تھی اس لیے ہمیں وہاں سے حکومتی سطح پر کسی قسم کے تعاون کی امید نہیں تھی لیکن آج نسبتاً سازگار ماحول ہے۔

مزید پڑھیں: افغان وزیر خارجہ نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے جنگ بندی معاہدے کو خوش آئند قرار دے دیا

تاہم ان کا کہنا تھا کہ سازگار ماحول کے باوجود موجودہ حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی شرائط کم و بیش وہی ہیں جو اس وقت رکھی گئی تھیں اور ایسی شرائط کو پورا کرنا حکومت کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔

انہوں نے مذاکرات کی کامیابی پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی طرح سے مذاکرات کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو طالبان کے کئی دھڑے ہیں اور سب پر شوریٰ کا کمانڈ نہیں لہٰذا دہشت گردی کی کارروائیاں رک نہیں سکتیں۔

ایرانی سرحد پر انسانوں کی اسمگلنگ کا کالا دھندہ کیسے ہوتا ہے؟

’بلاشبہ کھلاڑیوں نے پاکستانی کرکٹ کی ساکھ کو بلندیاں بخشی ہیں‘

شادی سے متعلق اپنے پرانے بیان پر ملالہ کی وضاحت