پاکستان

سپریم کورٹ کا شاہراہوں پر مسافروں کی ’ہراسانی‘ پر اظہارِ افسوس

عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ہائی وے پر گاڑیوں کو مختلف مقامات پر روکا اور مسافروں کو چیکنگ کے نام پر گھنٹوں انتظار کرایا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) اور کوسٹ گارڈ (سی جی) کے طرز عمل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض پیشہ ورانہ انداز میں ادا کریں اور شاہراہوں سے کام پر جانے والے مسافروں کی تذلیل اور تضحیک نہ کریں۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے یہ ریمارکس آر سی شاہراہ/این 25 بلوچستان ہائی وے کی خراب صورتحال سے متعلق سماعت کے دوران دیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ازخود نوٹس آر سی ڈی ہائی وے، بلوچستان کی خستہ حالی کی اطلاعات پر لیا گیا تھا جس کے نتیجے میں متعدد جان لیوا حادثات ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:انسداد ہراسانی قانون پر سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف نظرثانی کی درخواست دائر

اس دوران عدالت کی توجہ این 25 بلوچستان ہائی وے پر ایف سی اور سی جی کی جانب سے مسافروں کو مسلسل ہراساں کرنے کی شکایات کی طرف مبذول کرائی گئی۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ ہائی وے پر چلنے والی گاڑیوں کو وقتاً فوقتاً مختلف مقامات پر روکا جاتا ہے اور مسافروں کو چیکنگ کے نام پر گھنٹوں انتظار کریا جاتا ہے۔

چنانچہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود کو ایف سی اور سی جی کے مبینہ طرز عمل سے متعلق ہدایات حاصل کرنے اور دسمبر کے پہلے ہفتے میں آئندہ سماعت سے قبل ایک جامع رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا گیا۔

اس کے ساتھ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے چیئرمین کو بھی پاکستان میں مختلف شاہراہوں کی صورتحال کے بارے میں ایک جامع رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔

مزید پڑھیں: کام کی جگہ پر ہراسانی کے قانون کا دائرہ محدود ہے، سپریم کورٹ

این 25 ہائی وے بڑی گاڑیوںکی نقل و حمل کا واحد راستہ ہے کیونکہ 813 کلومیٹر طویل سڑک افغانستان میں داخل ہونے کے لیے کراچی، بیلہ، خضدار، قلات، مستونگ، کوئٹہ اور چمن سے گزرتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس سڑک پر زیادہ تر حادثات بلوچستان کے اضلاع بیلہ، خضدار، قلات اور مستونگ کے درمیانی علاقوں میں پیش آئے۔

10 نومبر کو جاری کردہ حکم میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی حب خضدار کوئٹؤ چمن ہائی وے پر کچھ کام کررہی ہے لیکن رپورٹ میں بتائی گئی صورتحال کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ شاہراہ کا 22.63 فیصد حصہ خراب حالت میں، 69.13 فیصد بس ٹھیک اور 8.24 فیصد حصہ اچھی حالت میں ہے۔

عدالت نے افسوس کا اظہار کیا کہ جب این25کی دیکھ بھال پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں تو یہ صورتحال ایک مذاق لگتی ہے ساتھ ہی این ایچ اے کے چیئرمین کو ہدایت کی کہ ہائی وے کی 100 فیصد اچھی حالت اور تمام تر سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: حکومت پنجاب کو بلدیاتی ادارے فعال کرنے کیلئے 20 اکتوبر تک کی مہلت

دو رکنی بینچ نے کہا کہ ہائی وے پر عوام کی حفاظت کے لیے لگائے جانے والے مختلف انتباہی نشانات کی بھی کمی ہے، جبکہ شاہراہ کے اطراف میں درخت بھی نہین لگائے گئے۔

ساتھ ہی عدالت نے انسپکٹر جنرل نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کو حکم دیا کہ وہ بتائیں کہ این 25 پر پولیس فورس کیوں تعینات نہیں کی گئی اور اگر تعینات کی گئی ہے تو اتنے حادثات کیوں ہو رہے ہیں۔

جون می سماعت کے دوران، چیف جسٹس نے اس حقیقت پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا تھا کہ این ایچ اے کی زیر نگرانی سڑکیں خستہ حال ہیں جن میں بارش کے بعد گڑھے بن گئے تھے۔

تحقیقات کا سامنا کرنے والے وزرا ای سی پی اراکین کی تعیناتی سے متعلق کمیٹی میں شامل

ایکواڈور کی جیل میں قیدیوں میں فسادات، 68 افراد ہلاک

افغانستان: کابل میں منی وین میں دھماکے سے 6 افراد ہلاک