پاکستان

ڈسکہ الیکشن بےضابطگی: شہباز شریف کا ملوث افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

ڈسکہ ضمنی انتخاب میں دھاندلی میں ملوث وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ذمہ داران کو بے نقاب کیا جائے، قائد حزب اختلاف
|

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے خط کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا سے ڈسکہ الیکشن میں دھاندلی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کردیا۔

شہباز شریف نے 23 نومبر 2021 کو چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ ڈسکہ الیکشن میں چوری میں ملوث افسران اور عملے کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے پس پردہ رہ کر انتخابی دھاندلی کروانے اور غیرقانونی ہدایات دینے والے وفاقی اور صوبائی حکومت کے ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جائے۔

قائد حزبِ اختلاف نے لکھا کہ میں الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتا ہوں کہ سیکشن 191 کے تحت ڈسکہ الیکشن میں ملوث پائے گئے افسران و عملے کے خلاف عدالت میں شکایات دائر کریں اور ملوث افراد کو سیکشن 184، 186 اور187 کے تحت سزا دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ سیکشن 190 کے تحت ملوث افراد کے خلاف سیکشن167، سیکشن 175، 174 اور183 کے مطابق کارروائی کی جائے۔

مزید پڑھیں: ڈسکہ ضمنی انتخاب سے متعلق ایک اور تہلکہ خیز رپورٹ جاری

شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ایکٹ، رولز، ضابطہ اخلاق، طریقہ ہائے کار میں ترامیم کی جائیں تاکہ آئندہ ڈسکہ جیسی بے ضابطگیاں نہ ہوں سکیں۔

انہوں نے کہا کہ این اے 75 سیالکوٹ 5(ڈسکہ) ضمنی الیکشن کے نتائج پر 2 رپورٹس جاری ہوچکی ہیں جس میں پریذائیڈنگ افسران، انتخابی عملہ، ڈی سی اور ڈی پی او سیالکوٹ قواعد کی خلاف وزری اور غیرقانونی سرگرمیوں کے مرتکب پائے گئے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ ملوث افراد نے نتائج کو حکومت کے حق میں موڑتے ہوئے انتخابی عمل پامال کیا اور افسران نے انتخابی عملے کو غیرقانونی احکامات دیتے ہوئے مجرمانہ طرز عمل کا ارتکاب کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ سے ثابت ہوا کہ سرکاری افسر کی رہائش گاہ پر حکومتی اہلکاروں کے مسلسل اجلاس ہوتے رہے اور ان ملاقاتوں میں ایک مشیر وزیراعلی اور وزیراعلی سیکریٹریٹ کے افسر بھی شریک ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان اجلاسوں میں پولیس ڈی ایس پیز اور دیگر پولیس اہلکار بھی انتخابی ڈیوٹی انجام دیتے رہے ہیں جو قانونی، انتخابی اور سکیورٹی پلان کی خلاف ورزی ہے۔

شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ ضمنی انتخاب کالعدم قرار دینے، ڈی سی اور ڈی پی او سمیت متعلقہ افسران کی معطلی اور الیکشن کمشن کے دیگر بروقت فیصلوں کو سراہتے ہوئے الیکشن کمشن سے مطالبہ کرتاہوں کہ تمام ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا آغاز کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ انکوائری رپورٹ: آج سب سے بڑا امتحان ملک کی عدلیہ کا ہے، شاہد خاقان عباسی

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ان اقدامات سے مستقبل میں ایسی بے ضابطگیوں اور غیرقانونی طرز عمل کو روکنے کی سمت مقرر ہوسکے گی جس سے آئندہ انتخابات میں دھاندلی روکنے میں مدد ملے گی۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انتخابی دھاندلی اور ووٹ چوری سے پاکستان کے جمہوری نظام پر دھبہ لگا ہے۔

یاد رہے کہ رواں سال 8 ستمبر الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ڈسکہ میں رواں سال فروری میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے دوران 20 پریذائیڈنگ افسران کے پراسرار طور پر لاپتا ہونے کے بارے میں دو انکوائری رپورٹس جاری کی تھیں۔

ای سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کو پہلے ہی اس بات کا علم تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور انہوں نے منصوبہ بندی کے مطابق چیزوں کو ہونے دیا‘۔

افسران کے خلاف 34 صفحات پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’ضلعی انتظامیہ کسی نہ کسی سطح پر ضمنی الیکشن کے حوالے سے تمام ناپسندیدہ اور غیر قانونی واقعات میں شامل رہی ہے‘۔

دوسری انکوائری رپورٹ میں معلوم ہوا کہ انتخابی عہدیداروں اورحکومتی اہلکاروں نے اپنے ’غیر قانونی آقاؤں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلیوں‘ کے طور پر کام کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ کے 'لاپتا' الیکشن عہدیداران سے متعلق جیو فینسگ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

رپورٹ کے مطابق سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر نے اعتراف کیا کہ عمومی طور پر حکومت وقت ضمنی انتخاب میں دباؤ ڈالتی ہیں اور ’انہوں نے مجھ سے بھی رابطہ کیا‘۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ واقعاتی شواہد اور اے ای اوز/پی اوز کے بیانات سے یہ انکشاف ہوا کہ اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ بھی ریٹرننگ افسر کی معاونت کررہے تھے اور آنے والے واقعات سے باخبر تھے جس نے پولنگ کے دن امن و امان کی صورتحال کو تباہ کر دیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس کی روشنی میں انہوں نے اے ای اوز/پی اوز کو کچھ خاص ہدایات دیں جن کے ریکارڈ کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان کے ذہنوں کو الجھا کر انہیں خوفزدہ کر دیا۔

انتخابی اہلکاروں کو غیر قانونی ہدایات دے کر اے سی ڈسکہ دراصل اے ای اوز/پی اوز کو ہراساں کررہے تھے اور انہیں اپنی ہدایات کے مطابق عمل کرنے اور فرخندہ یاسمین اور حامد رضا کی ہدایات کی پیروی کرنے پر راضی کررہے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) نے جان بوجھ کر ریٹرننگ افسر کے پاس تاخیر سے سیکیورٹی پلان جمع کروایا تا کہ کسی بھی اعتراض، سوال اور جھول کی نشاندہی سے بچا جاسکے۔

مزید پڑھیں: ‘باقاعدہ منصوبہ بندی’: پولیس،انتخابی عملہ ڈسکہ ضمنی انتخاب سبوتاژ کرنے کے ذمہ دار قرار

رپورٹ میں قرار دیا گیا کہ ضلعی پولیس کو بھی پولنگ کے دن ہونے والے واقعات کا علم تھا اور وہ جان بوجھ کر یا نیم دلی سے اس کی انجام دہی میں حصہ دار بن گئے کیونکہ اس طرح کے ناخوشگوار واقعات کو روکنے کے لیے ضلعی پولیس کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے جن کی نشاندہی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اپنی رپورٹ میں کی تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس ڈسکہ بھی اس وقت کی وزیر اعلیٰ پنجاب کی مشیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے اجلاسوں کا مرکز بن گیا تھا جہاں انہوں نے مختلف اجلاسوں کی صدارت کی۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 75 (سیالکوٹ فور) میں ضمنی انتخاب میں نتائج میں غیرضروری تاخیر اور عملے کے لاپتا ہونے پر 20 پولنگ اسٹیشن کے نتائج میں ردو بدل کے خدشے کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے متعلقہ افسران کو غیرحتمی نتیجے کے اعلان سے روک دیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کے الزامات عائد کر کے دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا جس پر وزیراعظم عمران خاں نے ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-75 پر ہوئے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اُمیدوار سے 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دینے کا کہا تھا۔

جس پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بناتے ہوئے این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیا اور 18 مارچ کو حلقے میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا تھا۔

سعودی عرب نے پاکستان سے براہِ راست پروازوں پر پابندی ختم کردی

پاکستانی طلبہ کی چین واپس جانے کیلئے وزیر اعظم سے مدد کی اپیل

پاک بھارت ورلڈ کپ مقابلہ ٹی20 کا سب سے زیادہ دیکھے جانے والا میچ قرار