نقطہ نظر

1971ء: جب عالمی طاقتوں نے مذمت اور ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کیا

وائٹ ہاؤس نے مایوسی کے عالم میں اردن اور ایران کے بادشاہوں سے مطالبہ کیا کہ وہ صدر یحییٰ کو امریکی ہتھیار فراہم کریں۔

پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پہلے انتخابات کے تقریباً ایک سال بعد ہی ملک کو جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ ان غیر ضروری اور بدقسمت حالات کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ قوم انتخابی نتائج کے جمہوری تقاضوں کو پورا نہیں کرسکی۔

25 اور 26 مارچ 1971ء کی درمیانی شب ڈھاکہ میں ہونے والا خوفناک فوجی کریک ڈاؤن مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کا آغاز ثابت ہوا۔ لاکھوں پناہ گزین سرحد عبور کرکے بھارت جانے لگے، ابتدائی طور پر ان پناہ گزینوں میں تمام طبقات کے ہی لوگ تھے تاہم ان میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔

بھارت کے لیے مکتی باہنی کی حمایت کرنا کوئی مشکل فیصلہ نہیں تھا۔ تاہم براہِ راست فوجی مداخلت ایک بالکل الگ معاملہ تھا۔ اندرا گاندھی نے اپریل کے مہینے میں ہی اپنے جرنیلوں کو خبردار کردیا تھا کہ انہیں حزبِ اختلاف کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ بنگالی قوم پرستوں کے ساتھ ہمدردی کے اظہار سے بڑھ کر کچھ کریں۔

مزید پڑھیے: ’جب مکتی باہنی جان بخشی کے عوض ہمارا سارا سونا لوٹ کر لے گئے‘

بھارتی فوجی قیادت نے اندرا گاندھی کو بتایا کہ انہیں تیاری کے لیے تقریباً 6 ماہ کا وقت چاہیے۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی وہ راستہ مشکل تھا اور پھر مون سون بارشوں کی وجہ سے راستے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا تھا۔ ابتدائی طور پر حملے کے لیے 15 نومبر کی تاریخ مناسب سمجھی گئی تاہم بعد میں اسے 4 دسمبر طے کیا گیا۔

جب 3 دسمبر کو پاکستانی فضائیہ نے بھارت کی مغربی سرحد پار کی تو ایک طرح سے اندرا گاندھی نے سکون کا سانس لیا کیونکہ وہ اب پاکستان کو جارح قرار دے سکتی تھیں۔

تاہم یہ اتنا آسان کام نہیں تھا۔ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں فوری جنگ بندی کی کم از کم 3 قراردادوں کو روس نے ویٹو کیا کیونکہ روس نے اسی سال کی ابتدا میں بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا تھا۔ امریکا جو عام طور پر اقوامِ متحدہ کے خلاف ہی ہوتا تھا وہ سیکیورٹی کونسل اور جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ کے حوالے سے بہت پُرجوش تھا۔

امریکی صدر رچرڈ نکسن اور ان کے طاقتور مشیر برائے قومی سلامتی ہینری کسنجر نہ صرف بھارتی حکومت بلکہ بھارتیوں کے بھی شدید مخالف تھے۔ اس کے برعکس یہ دونوں افراد یحییٰ خان کے دیوانے تھے، وہی یحییٰ خان جو پاکستان کو دولخت ہونے کی جانب لے جارہے تھے۔

وائٹ ہاؤس نے مایوسی کے عالم میں اردن اور ایران کے بادشاہوں سے مطالبہ کیا کہ وہ یحییٰ حکومت کو امریکی ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کریں۔ یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ اب مشرقی پاکستان کو بچایا نہیں جاسکتا۔ یہاں تک کہ خود صدر نکسن بھی سوچ رہے تھے کہ ان حالات میں قوم کیا کررہی ہے۔

مزید پڑھیے: سقوطِ ڈھاکہ اور ہینری کسنجر کا جھوٹا سچ

امریکی صدر سوچ رہے تھے کہ کہیں ہینری کسنجر کو نفسیاتی علاج کی تو ضرورت نہیں ہے۔ ویسے اس وقت تو شاید ان دونوں کو ہی نفسیاتی علاج کی ضرورت تھی۔ کسنجر نے بے دریغ قتلِ عام کو تقریباً نظر انداز کیا اور پھر ایک روسی اتحادی کی جانب سے امریکی دوست ملک کی ’عصمت دری‘ کے حوالے سے کچھ نہ کرنے پر افسوس کرتے نظر آئے۔

اسی طرح نکسن بھی ایک بڑے فریب سے دوچار تھے۔ ایک مقام پر انہوں نے کہا کہ ’اگر ہم نے کبھی کسی ملک کے اندرونی مسائل کو اس سے بڑے اور طاقتور ملک کے لیے اس پر حملے کرنے کے جواز کے طور پر تسلیم کرلیا تو دنیا میں بین الاقوامی نظام ختم ہوجائے گا‘۔

انہوں نے یہ بات اقوامِ متحدہ میں امریکا کے سفیر اور مستقبل کے امریکی صدر جارج ایچ ڈبلیو بش سے اس وقت کہی تھی جب ان کا اپنا ملک شمالی ویتنام میں بمباری کررہا تھا۔ اسی طرح کسی نے اس ستم ظریفی کو نہیں دیکھا جب مستقبل کے صدارتی امیدوار جان مکین کے والد کی سربراہی میں امریکی بحری بیڑے نے طاقت کے بے مقصد اظہار کے لیے خلیج ٹنکن سے خلیج بنگال کی جانب بڑھنا شروع کیا۔

اسی دوران چین کو راغب کرنے کی بھی کوششیں جاری تھیں کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنی سرحد پر قوت کا اظہار کرے۔ اس وقت سویت یونین کے ساتھ مقابلے میں چین کو امریکا کا اتحادی سمجھا جاتا تھا۔ چین نے طاقت کے اظہار سے انکار تو نہیں کیا لیکن کھلے دل کے ساتھ اس کام کو انجام بھی نہیں دیا، حالانکہ جنرل یحییٰ کے ساتھ چین کے بہت اچھے تعلقات تھے اور انہوں نے امریکا اور چین کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ماسکو نے امریکا کی جانب سے سیکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی 3 قراردادوں کو ویٹو کیا تھا۔ یوں بھارتی افواج کو ڈھاکہ تک پہنچنے کا وقت مل گیا۔ ڈھاکہ میں جنرل امیر عبداللہ خان نیازی موجود تھے، انہوں نے پہلے تو جنگ بندی کی کوششیں کیں لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ کھیل ختم ہوچکا ہے۔ ان حالات میں ان کا ہتھیار ڈالنا ہی درست فیصلہ تھا۔

مزید پڑھیے: سقوطِ ڈھاکہ: تلخ ماضی کو بھلا کر روشن مستقبل کی بنیاد کیسے ڈالی جائے؟

دوسری جانب بھارت کی مغربی سرحد پر جہاں بھارتی افواج کو نسبتاً زیادہ مزاحمت کا سامنا تھا وہاں بھارت نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کردیا۔ امریکا نے اسے فتح کے طور پر دیکھا۔ امریکا کو خطرہ تھا کہ ڈھاکہ کے ناگزیر سقوط کے بعد بھارت کہیں ماندہ پاکستان کو بھی تقسیم کرنے کی کوشش نہ کرے۔ تاہم اندرا گاندھی نے اپنے جرنیلوں کو مغربی پاکستان میں داخل ہونے کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کردیا تھا۔

اس کے بعد ہمیں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں اس وقت کے پاکستانی وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ایک پُرجوش تقریر کرتے نظر آئے، اس کی وجہ کیا بنی ابھی ہم اس پر بات نہیں کرتے لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس کے بعد سے نہ ہی پاکستان ویسا رہا اور نہ ہی بنگلہ دیش 1971ء کے بعد فوری کامیابی کی نشانی بنا۔ خوش قسمتی سے تیسری پاک بھارت جنگ دو ہفتوں کے اندر ہی ختم ہوگئی۔ اس جنگ کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے۔


یہ مضمون یکم دسمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔