نقطہ نظر

پنسار کا کاروبار قائم و دائم ہے اور رہے گا

کراچی کے ہر بڑے علاقے میں کم از کم ایک پنسار کی دکان ضرور نظر آجاتی ہے۔ صدر میں ایک جگہ پنسار کے دکانوں کی پوری قطار موجود ہے۔

محمد عمران روزانہ صبح 10 بجے صدر میں واقع اپنے مدینہ پنسار اسٹور کا شٹر اٹھاتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے 2 لڑکے دکان کی صفائی اور جڑی بوٹیاں پیسنے والی مشین کو صاف کرکے نئے دن کی ابتدا کرچکے ہیں۔

محمد عمران کی اس دکان کی طرح پنسار کی دیگر دکانوں پر مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں، ہربل یا قدرتی ادویات، خوردنی تیل کی مختلف اقسام، مصالحہ جات، خشک میوہ جات، شہد اور صحت بخش مربہ جات فروخت کیے جاتے ہیں۔

وہ جیسے ہی شیلف پر موجود مختلف برنیوں میں رکھی چیزوں کی مقدار دیکھنے کے لیے ان کے ڈھکن اٹھاتے ہیں تو ہوا میں روغنِ لیونڈر یا اسطوخدوس، گڑھل یا گل خطمی اور تخم کدو کی تیز خوشبو پھیل جاتی ہے۔ وہ چھوٹے لڑکے کو قریبی چائے کے ڈھابے سے چائے لانے کے لیے کہتے ہیں اور پھر سامنے رکھے اسٹول پر موجود ٹی وی آن کردیتے ہیں۔ چونکہ بازار میں خریداروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اس لیے اردگرد سے باتوں اور قدموں کی آوازیں بھی آنا شروع ہوگئی ہیں۔

چونکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران عام بیماریوں میں استعمال ہونے والے گھریلو ٹوٹکے اور نسخے مارننگ ٹی وی شوز کا عام موضوع بن گئے تھے اس لیے ہم بھی اب دادی اماں کی نسخوں کی طرف لوٹنا شروع ہوگئے۔ پھر عالمی وبا کے بعد تو ہر ایک اپنا مدافعتی نظام مضبوط سے مضبوط تر بنانا اور خود کو صحت مند رکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ جو جڑی بوٹیاں اور قدرتی ادویات چند گنی چنی دکانوں پر ہی دستیاب ہوا کرتی تھیں وہ آج تمام دکانوں پر باآسانی دستیاب ہیں۔

آپ کو کراچی کے ہر بڑے علاقے میں کم از کم ایک پنسار کی دکان ضرور نظر آجائے گی۔ صدر میں اس جگہ پر پنسار کی دکانوں کی ایک پوری قطار قائم ہوچکی ہے جہاں کسی وقت میں بیکریاں ہوا کرتی تھیں۔ جو لوگ آن لائن خریداری کو ترجیح دیتے ہیں ان کے لیے ایسی متعدد ویب سائٹس اور فیس بک پیج دستیاب ہیں جہاں سے پنسار کی چیزیں آن لائن منگوائی جاسکتی ہیں۔

زیادہ تر پنسار ایران، بھارت اور نیپال سے جڑی بوٹیاں اور قدرتی ادوایات منگوا کر اپنی دکانوں میں ذخیرہ کرتے ہیں۔ محمد عمران بتاتے ہیں کہ 'ہم جن 20 ہزار جڑی بوٹیوں کو فروخت کرتے ہیں ان میں سے 1800 بیرونِ ملک سے منگوائی جاتی ہیں اور بقیہ مقامی سطح پر پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً، جوڑوں کے درد کے علاج اور وٹامن ڈی کی کمی کو دُور کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی اسگندھ ناگوری نامی جڑی بوٹی بھارت سے آتی ہے جبکہ زعفران ایران سے منگوائی جاتی ہے'۔

کورونا وبا جب اپنے عروج پر تھی اس وقت مدینہ اسٹور پر سب سے زیادہ بکنے والا آئٹم زعفران بن گیا اور ہر ہفتے سیکڑوں کی تعداد میں زعفران کی کھیپیں فروخت ہو رہی تھیں۔ محمد عمران کے مطابق 'زعفران مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے اور پٹھوں کے تناؤ کو دُور کرنے کے ساتھ ساتھ ملٹی وٹامن کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ بکنے والی چیزوں میں مصلی، سنگھاڑہ، اسپغول، آملہ، ریٹھہ اور جوشاندہ شامل ہیں‘۔

بلاشبہ مختلف جڑی بوٹیوں کی افادیت کا بڑی حد تک تعلق کڑے سائنسی تجربوں سے زیادہ اعتماد، روایتی معالجین کے مشوروں اور دوسرے کے تجربات سے جڑا ہوا ہے۔

زیادہ تر دکاندار اپنا سامان ہول سیل مارکیٹوں سے خردیتے ہیں، جن میں سے لاہور کی اکبری منڈی اور کراچی کا جوڑیا بازار سب سے بڑی مارکیٹیں شمار ہوتی ہیں۔

کراچی کے علاقے نصیرآباد میں موجود حیدر ہربل پنسار اسٹور کے مالک حیدر بتاتے ہیں کہ 'بھارت، ایران اور دیگر خطوں کے تاجر مقامی ہول سیلرز کو فروخت کرتے ہیں، جن سے پھر ہم جیسے پنسار سامان خرید لاتے ہیں‘۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ 'ہمارے پاس پورے شہر سے ہر قسم کے صارفین آتے ہیں۔ کئی لوگ سائیڈ افیکٹس کے ڈر سے مہنگی ایلوپیتھی ادویات کو استعمال کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا ماننا ہے کہ ایلوپیتھی ادویات کے استعمال سے ایک سے دوسرا مرض پیدا ہوجاتا ہے'۔

ثقافتی اعتبار سے دیکھیں تو جڑی بوٹیوں کے نام، ان کا استعمال اور ان کے اثرات سے ہم انجان نہیں ہیں، کیونکہ بہت سی جڑی بوٹیوں کو مختلف پکوانوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

کراچی کے علاقے گلبرگ ٹاؤن میں واقع تاج پنسار اسٹور کے مسعود صدیقی کہتے ہیں کہ 'دہائیوں سے جڑی بوٹیوں کے نام اور ان کو استعمال کرنے کے طریقے ایک سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے چلے آئے ہیں۔ ہمارے بڑے تمام اقسام کے امراض کے قدرتی طریقہ علاج کے لیے ہلدی، میتھی دانہ، تخم کدو اور السی کے بیج استعمال کیا کرتے تھے، اور انہوں نے خوب لمبی عمر پائی۔ حتیٰ کہ چند ڈاکٹر بھی ہماری مصنوعات استعمال کرتے ہیں‘۔

چند پنسار کی دکانوں میں مریضوں کو دیکھنے اور امراض کی تشخیص کے لیے حکیم بھی موجود ہوتے ہیں۔ محمد عمران نے بتایا کہ 'ہم اسی طرح مریض کو دوائی تیار کرکے دیتے ہیں جس طرح 7ویں صدی میں تیار کی جاتی تھی، اس کے لیے مریضوں کو لیبارٹری رپورٹس اور مشینوں کے ذریعے ہونے والے ٹیسٹوں میں الجھاتے نہیں ہیں۔ بہت سے صارفین ایلوپیتھی ڈاکٹروں سے زیادہ حکیموں سے مشورہ لینا پسند کرتے ہیں۔ ان حکیموں نے حکیم سعید، احسان قریشی، اجمل خان جیسے معروف حکیموں سے علم حاصل کیا ہوا ہے‘۔

عام خیال یہ ہے کہ پنسار کی دکانوں پر دستیاب جڑی بوٹیاں اور ادویات کے سائیڈ افیکٹ نہیں ہوتے مگر ایسا نہیں ہے اور ان کے سائیڈ افیکٹ ہوسکتے ہیں جس کا تعین خوراک کی مقدار اور ان چیزوں سے ہوتا ہے جن کے ساتھ جڑی بوٹیوں یا قدرتی ادویات کو استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔

حیدر کے مطابق 'آپ کو یہ دھیان رکھنا ہوتا ہے کہ آیور وید کے اصولوں کے مطابق آپ کے جسم کے لیے کس دوائی کی تاثیر ٹھنڈی اور کس کی گرم ہوسکتی ہے۔ مثلاً ہلدی کی تاثیر گرم ہوتی ہے اور اسے سونف کے ساتھ ہی استعمال کرنا چاہیے کیونکہ سونف کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے‘۔

مسعود صدیقی مزید بتاتے ہیں کہ 'نسخے میں درج مقدار کے مطابق دوائی یا جڑی بوٹی استعمال کی جائے ورنہ اپنی طرف سے ان کا استعمال نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے‘۔

حیدر کے پاس عالمی وبا کے ان ابتدائی دنوں سے متعلق بتانے کے لیے ایک بڑی دلچسپ کہانی ہے جب ہر ایک خوف و ڈر کی زد میں تھا اور ویکسین کی آمد نہیں ہوئی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'ہر کوئی سنا مکی خریدنا چاہتا تھا۔ حالانکہ سنا مکی ہاضمے میں مدد دیتی ہے مگر کورونا کے علاج میں اس کے مفید ہونے کی بات پھیلا دی گئی تھی۔ لوگ اسے دھڑا دھڑ خرید رہے تھے۔ اس کی طلب میں اس قدر اضافہ ہوگیا کہ 200 روپے فی کلو بکنے والی سنا مکی 6 ہزار فی کلو فروخت ہونے لگی‘۔

حیدر بتاتے ہیں کہ 'چونکہ یہ جلاب آور ہے اس لیے اب ہمارے پاس اسہال کی شکایت لے کر لوگ آنے لگے، انہیں لگتا تھا کہ یہ جسم سے کورونا کے اخراج کی علامت ہے۔ مگر اب وہ اسہال پر بھی قابو پانا چاہتے تھے۔ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ کمزور انتڑیوں والے افراد کو سنا مکی نہیں لینی چاہیے۔ بہتر نتائج کے لیے اسے گلاب کی پتیوں اور دیگر جڑی بوٹیوں میں ملانا ضروری ہوتا ہے‘۔

گزشتہ برس ہر تھوڑے عرصے بعد لاک ڈاؤن نافذ کردیا جاتا تاہم پنسار کی دکانوں پر صارفین کا آنا بند نہیں ہوا۔ حیدر بتاتے ہیں کہ 'جب لاک ڈاؤن میں نرمی کی جاتی تو لوگ ہم سے زیادہ سامان خریدنے آیا کرتے تھے، لہٰذا لوگوں میں صحت کا شعور بیدار ہونے کی وجہ سے ہماری دکانداری پہلے جیسی ہی رہی‘۔

محمد عمران میڈیکل اسٹورز یا فارمیسیوں کی طرح پنسار کی دکانوں کو بھی ضابطہ کار میں لانے کے خواہاں ہیں۔ 'جب لاک ڈاؤن کے دوران تمام ہسپتال، فارمیسیاں اور صحت سے جڑے مراکز کھلے رہے تو پھر ہم پر بندش کا اطلاق کیوں کیا گیا؟ ہم بھی ان کی طرح اہمیت رکھتے ہیں۔ ہماری بنائی ہوئی خوراکیں لوگوں کی صحت کو بہتر بناتی ہیں اور ہم سے مستفید ہونے والے چند نہیں بلکہ سیکڑوں ہزاروں ہیں‘۔

عالمی وبا نے جہاں صحت مند طرزِ زندگی کو ہر ایک کی اہم ضرورت بنادیا ہے وہیں لوگوں میں بھی اس حوالے سے آگاہی پیدا ہوئی ہے اور وہ ہر چیز کے لیے قدرتی اور نامیاتی اجزا پر مشتمل دوا یا خوراک کی تلاش میں رہتے ہیں۔

محمد عمران کہتے ہیں کہ 'جب لوگ ہمارے پاس آتے ہیں تو انہیں پتا ہوتا ہے کہ کون سی جڑی بوٹی کس مرض کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ قدرتی طریقہ علاج میں کسی قسم کی غیر یقینی یا شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سب کچھ سب کے سامنے ہے‘۔

جب وہ اخبار لپیٹ کر ایک طرف رکھتے ہیں اور ایک پرچے پر درج روزانہ کی فروخت کے حساب کتاب کا جائزہ لیتے ہیں تو انہیں فروخت میں بڑھوتری نظر آتی ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل لوگ عالمی وبا، شہر میں پھیلے ہوئے ڈینگی اور موسمی نزلے زکام سے نبردآزما ہیں۔

لہٰذا کسی نہ کسی وجہ سے پنسار کا کاروبار آئندہ زمانوں میں قائم و دائم نظر آتا ہے۔


یہ مضمون 19 دسمبر 2021ء کو ڈان، ای او ایس میں شائع ہوا۔

مہرین نوید چاولہ

مہرین نوید چاولہ نے 2015 میں نکسر کالج سے اے لیولز کیا ہے۔ وہ مصنفہ بننا چاہتی ہیں اور جانوروں سے پیار کرتی ہیں۔ وہ ڈان اور عائشہ چندریگر فاؤنڈیشن میں انٹرن شپ بھی کر چکی ہیں۔

وہ پاکستانی معاشرے پر ایک مثبت اثر چھوڑنا چاہتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔