صحت

سائنو ویک ویکسین کا بوسٹر ڈوز اومیکرون کے خلاف کتنا مؤثر؟ ڈیٹا سامنے آگیا

ہانگ کانگ کے محققین نے سائنو ویک کے بوسٹر ڈوز کے اومیکرون پر اثرات کا ابتدائی ڈیٹا جاری کیا ہے۔

کورونا کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف مختلف کمپنیوں کی ویکسینز کی اضافی خوراک کے اثرات کو جاننے کے لیے دنیا بھر میں طبی ماہرین کی جانب سے کام کیا جاریا ہے۔

اب ہانگ کانگ کے محققین نے کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والی چینی کمپنی سائنو ویک کے بوسٹر ڈوز کے اومیکرون پر اثرات کا ابتدائی ڈیٹا جاری کیا ہے۔

اس سے قبل حالیہ دنوں میں سائنو فارم کے بوسٹر ڈوز کے اومیکرون کے حوالے سے افادیت کا ڈیٹا سامنے آیا تھا۔

شنگھائی جیاؤ تانگ یونیورسٹی‘ اور وبائی امراض پر تحقیق کرنے والے ادارے کی مشترکہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ’سائنوفارم‘ کا تیسرا ڈوز بھی ’اومیکرون‘ کے خلاف محض 20 فیصد اینٹی باڈیز تیار کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔

اب ہانگ کانگ کے محققین کی جانب سے سائنو ویک ویکسین کی اضافی خوراک کی افادیت کے ڈیٹا میں بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے نتیجے میں اومیکرون سے لڑنے کے لیے مناسب مقدار میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز نہیں بنتیں۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے جاری تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ سائنو ویک ویکسین کی 2 خوراکوں کے بعد فائزر/بائیو این ٹیک کی تیار کردہ ایم آر این اے ویکسین کو بوسٹر ڈوز کے طور پر استعمال کرنا اومیکرون سے تحفظ کے لیے زیادہ مؤثر ہے۔

فائزر اور بائیو این ٹیک نے پہلے ہی ایک بیان میں بتایا تھا کہ لیبارٹری ٹیسٹ میں اس کی ویکسین کی 3 خوراکوں کا استعمال اومیکرون سے تحفظ فراہم کرنے میں مؤثر ثابت ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف ہانگ کانگ اور چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کی اس تحقیق کے لیے سرمایہ ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ فنڈ اور ہانگ کانگ حکومت نے فراہم کیا تھا۔

تحقیق میں یہ نہیں بتایا گیا کہ تجزیے کے لیے کتنے نمونوں کو استعمال کیا گیا اور نہ ہی سائنو ویک کی جانب سے فی الحال کوئی بیان سامنے آیا ہے۔

تحقیق میں سائنو ویک ویکسین کی تیسری خوراک سے اومیکرون کے خلاف بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح پر بھی روشنی نہیں ڈالی گئی۔

بس محققین نے عندیہ دیا کہ سائنو ویک ویکسین کو استعمال کرنے والے افراد کو بوسٹر کے طور پر کسی مختلف ویکسین کو ترجیح دینی چاہیے۔

خیال رہے کہ ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ اومیکرون قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں 70 گنا زیادہ متعدی ہوسکتی ہے اور اسی وجہ سے ویکسینیشن کرانے والے افراد کو اضافی خوراک یا اس قسم کے لے مخصوص ویکسین کے استعمال کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

سائنو ویک کی جانب سے حال ہی میں ایک لیبارٹری تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا تھا کہ ویکسین کی 3 خوراکیں استعمال کرنے والے 94 فیصد افراد میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بن گئی مگر سطح پر روشنی نہیں ڈالی گئی۔

ہانگ کانگ کی تحقیق میں ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح کی جانچ پڑتال میں تصدیق کی گئی کہ 2 خوراکیں اومیکرون سے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔

خیال رہے کہ ’سائنو فارم‘ اور ’سائنو ویک‘ نامی چینی ویکسینز پاکستان سمیت متعدد ایشیائی اور متوسط ممالک میں استعمال ہو رہی ہیں۔

دونوں کمپنیوں کی جانب سے اومیکرون کے مطبق ویکسین کو اپ ڈیٹ کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے جس پر کام بھی جاری ہے۔

کورونا کی قسم اومیکرون اور ڈیلٹا کے درمیان موازنے کا پہلا ڈیٹا جاری

امریکا نے کورونا کے علاج کیلئے ’گولیوں‘ کے استعمال کی اجازت دے دی

ماہرین ’اومیکرون‘ میں ’ایچ آئی وی‘ وائرس کی موجودگی کی تحقیق میں مصروف