دنیا

جوبائیڈن کی صدارت کے ایک سال میں ہی ان کے حامی مایوس

ایک سال قبل لاکھوں پرجوش، رنگ و نسل کی تمیز سے آزاد، جوان، مرد، عورتوں کی مشترکہ طاقت نے جو بائیڈن کو وائٹ ہاؤس بھیجا تھا۔

صرف ایک سال قبل لاکھوں پرجوش، رنگ و نسل کی تمیز سے آزاد، جوان مرد اور عورتوں کی مشترکہ طاقت نے جو بائیڈن کو وائٹ ہاؤس میں بھیجا تھا لیکن ان کی صدارت کے صرف ایک سال بعد بہت سے لوگوں نے اس اتحاد کو بحرانی اتحاد قرار دیا۔

غیرملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بائیڈن کے متنوع سیاسی حلقے میں سرکردہ آوازیں الیکشن مہم کے اہم وعدوں پر سست پیش رفت کو کھلے عام رد کرتی ہیں۔

صدر بائیڈن سے مایوسی خاص طور پر گزشتہ ہفتے اس وقت سامنے آئی جب بائیڈن کی جانب سے ووٹنگ کے حقوق کی قانون سازی کے لیے دباؤ کو مؤثر طریقے سے روک دیا گیا، جس سے پارٹی میں خدشات بڑھ گئے ہیں کہ بنیادی جمہوری اصول خطرے میں ہیں اور اس وسیع تر احساس کو تقویت دیتے ہیں کہ صدر تاریخی نتیجے کے موقعے پر کمزور ہو رہے ہیں۔

لوگوں کو محسوس ہورہا ہے کہ وہ جو حاصل کر رہے ہیں وہ اس سے بہت کم ہے جس کے لیے انہوں نے بائیڈن کو صدر بنایاتھا، صدر ینگ ڈیموکریٹس آف امریکا کا کہنا ہے کہ ہم بہت مایوس ہیں اور ہم نتائج نظر نہیں آرہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا، 4 افراد ہلاک

رواں سال صدر بائیڈن کو حاصل حمایت کی طاقت اس بات کا تعین کرے گی کہ ڈیموکریٹس اس سال سے آگے کانگریس میں اکثریت کو برقرار رکھتے ہیں یا وہ قانون سازی کا اختیار ری پبلیکن پارٹی کو دے دیں گے، جس کا زیادہ تر کنٹرول سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہے، جہاں پہلے ہی متعدد ریاستی قانون ساز اداروں میں ریپبلکنز نے واشنگٹن میں ڈیموکریٹک تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستی انتخابی قوانین، اسقاط حمل کے حقوق اور صحت عامہ کے اقدامات میں ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق دور رس تبدیلیاں کی ہیں۔

اگر بائیڈن اپنی پارٹی کو متحد نہ کرسکے اور اپنے سیاسی اتحاد کو دوبارہ طاقتور نہ کرسکے تو جی او پی ریاستی سطح پر اور وفاقی سطح پر مزید حوصلہ افزائی کرے گا اور سرخ لکیر جس نے گزشتہ سال کچھ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کی شکل واضح کی تھی وہ نومبر میں ہونے والے مڈٹرم الیکشن میں امریکا میں طاقت کے توازن کو بنیادی طورپر بدل سکتے ہیں۔

جن گروپس نے 2020 میں بائیڈن کی کامیابی میں کردار ادا کیا اس وقت ان میں سے کوئی بھی خوش نہیں ہیں، نوجوان مایوس ہیں کہ بائیڈن نے موسمیاتی تبدیلی اور طلبہ کے قرضوں سے نمٹنے کے وعدوں پر عمل نہیں کیا۔

رپورٹ کے مطابق خواتین پریشان ہیں کہ ان کے فیملی چھٹیاں بڑھانے کے منصوبے، بچوں کی نگہداشت، پری اسکول سب کے لیے جیسے منصوبے رک چکے ہیں خواتین کے اسقاط حمل کےمنصوبے رک چکے ہیں اور اسکول کھلے رہنے کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں :امریکی صدر جو بائیڈن کا 2024 کے انتخاب میں دوبارہ حصہ لینے کا امکان

دونوں جماعتوں میں موجود موڈریٹس جنہوں نے بائیڈن کی مرکزی سوچ کو پسند کیا تھا، اب پریشان ہیں کہ وہ اپنے وعدوں سے بہت دور چلے گئے ہیں اور بائیڈن کے سیاسی حلقوں میں موجود ووٹرز بہت غصے میں ہیں کہ انہوں نے ان کے ووٹنگ رائٹس کو تحفظ دینے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا۔

وائٹ ہاوس کا اب بھی اصرار ہے کہ بائیڈن نمایاں کام کر رہے ہیں خاص طور پر ان حالات میں جبکہ انہوں نے صدارت کا عہدہ اٹھایا۔

صدر کے سینئر ایڈوائرز کیڈرک رچمنڈ کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے صدیوں میں آنے والی وبا کورونا، معاشی بحران اور کھوکھلی وفاقی حکومت جیسے بڑے چیلنجز کے ساتھ صدارت سنبھالی تھی، اپنے پہلے ہی سال میں انہوں نے اپنے وعدوں پر کارکردگی دکھائی۔

انہوں نے 60 لاکھ سے زائد نئی نوکریوں اور 20 کروڑ ویکسین شدہ امریکی شہریوں، تاریخ کی سب سے متنوع کابینہ اور صدر رچرڈ نکسن کے بعد اپنے پہلے سال میں سب سے زیادہ وفاقی ججوں کی تعیناتی کی طرف اشارہ کیا۔

رcمنڈ نے صدر بائیڈن کے کورونا ریلیف پیکج سے متعلق قانون سازی کو بھی تاریخ ساز قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں :ٹرمپ نے 2024 کے صدارتی انتخابات لڑنے کا عندیہ دے دیا

ایک انٹرویو کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی میں بائیں بازو کی سب سے نمایاں آواز برنی سینڈرز نے بائیڈن کے کورونا وبا ریلیف پیکج کو مزدور لوگوں کی مدد کے لیے تاریخ کی سب سے اہم قانون سازی قراردیا اور کہا کہ ابھی مزید بہت کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسوسی ایٹس پریس کے مطابق این او آر سی سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ پولنگ جو گزشتہ ما جاری کی گئی ، کے مطابق صدر کی مقبولیت کی درجہ بندی تقریباً ہر آبادیاتی کے درمیان گر رہی ہے کیونکہ وبائی مرض جاری ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے اور ان کی مہم کے زیادہ تر وعدے پورے نہیں ہوئے۔

حالیہ دنوں میں قانونی دھچکوں کے سلسلے نے حالات کو مزید خراب کیا ہے، سپریم کورٹ نے بڑے کاروباروں کے لیے بائیڈن کی ویکسین اور جانچ ضروری قرار دینے کے فیصلے کو روک دیا۔

گزشتہ برس اپریل میں 10 میں سے تقریباً 9 کے مقابلے میں تقریباً 10 میں سے سات سیاہ فام امریکیوں نے کہا کہ انہوں نے دسمبر میں بائیڈن کی حمایت کی، موسم بہار میں تقریبا دو تہائی کے مقابلے میں صرف نصف خواتین نے پچھلے مہینے بائیڈن کی حمایت کی۔

یہ بھی پڑھیں :'نہیں جاؤں گا'، جمائما کا ڈونلڈ ٹرمپ پر مزاحیہ تبصرہ

خواتین کی قومی تنظیم کی صدر کرسچن نونس نے کہا کہ وہ خواتین کی ترجیحات کے تحفظ کے لیے بائیڈن کی طرف سے مزید تیزی دیکھنا چاہتی ہیں اور کہا کہ اس وقت اپنی ترجیحات کے لیے ہم ایک فائٹر چاہتے ہیں۔

نونس نے بائیڈن سے ووٹنگ کے حقوق کے تحفظ اور اسقاط حمل تک رسائی کے لیے سخت محنت کرنے کا مطالبہ کیا، جنہیں کئی ریپبلکن زیراقتدار ریاستوں میں ڈرامائی طور پر کم کام کیا گیا ہے۔

20لاکھ ارکان پر مشتمل سروس ایمپلائز انٹرنیشنل یونین کی صدر میری کی ہینری نے کہا کہ ان کے اراکین واشنگٹن سے مزید اقدامات چاہتے ہیں، لیکن وہ اس سال ووٹروں کو ان کاموں کی یاد دلانے کے لیے پوری قوت سے باہر ہوں گے جو بائیڈن وبائی امراض سے متعلق خدشات دور کرنے اور معاشی تحفظ کے لیے اقدامات پہلے ہی کرچکے ہیں۔

ینگ ڈیموکریٹس آف امریکا کے پریزیڈنٹ واتھم اوکاما کا کہنا تھا کہ ہم فائٹر جو بائیڈن کو دیکھنا چاہتے ہیں، متحد کرنے والا لیڈر ٹھیک ہوتا ہے لیکن اگر وہ چاہتے ہیں کی ہم اس کے لیے 2022 میں باہر نکلیں تو اس وقت ہمیں ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہمارے مسائل کے لیے لڑے۔

ویرات کوہلی بھارت کی ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سے بھی مستعفی

چین کا ایران سے تعاون کے معاہدوں کے ذریعے امریکی پابندیوں کا جواب

’کنگنا رناوت‘ کے گالوں سے اچھی سڑکیں بنانے کے اعلان پر بھارتی سیاستدان پر تنقید