دنیا

بالاکوٹ فضائی حملے کو غلط طور پر پیش کرنے کی کوشش نے بھارت کے تاثر کو متاثر کیا، رپورٹ

مودی حکومت کی جانب سے 2019 کے بالاکوٹ فضائی حملے کو غلط طریقے سے پیش کرنے سے بھارتی صلاحیت پر سوالات اٹھ گئے ہیں، تحقیقی رپورٹ

حال ہی میں جاری ایک تحقیقی پورٹ نے خبردار کیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے فروری 2019 کے بالاکوٹ فضائی حملے کو غلط طریقے سے پیش کرنے سے بھارت کی خطے میں غیر معمولی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت پر سوالات اٹھ گئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’اسٹریٹجک اِمپلی کیشن آف انڈیاز لبرلزم اینڈ ڈیموکریٹک اروژن‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی جمہوریت سے وابستگی سے متعلق شبہات بڑھ رہے ہیں اور بھارت کا جموریت سے کٹاؤ میڈیا پر سخت کنٹرول، سول سوسائٹی کے اداروں پر پابندیوں اور اقلیتوں کے لیے کم ہوتے تحفظ سے ظاہر ہوتا ہے۔

مصنف اور یونائیٹڈ اسٹیٹس آف پیس کے جنوبی ایشیا کے لیے سینئر مشیر ڈینیئل مارکی نے یہ پیپر نیشنل بیورو آف ایشین ریسرچ کے لیے لکھا ہے جو کہ واشنگٹن میں موجود ایک غیر منافع بخش تھنک ٹینک ہے۔

مصنف سمجھتے ہیں کہ بھارتی مقامی سیاست میں ابھرتا ہوا رجحان اس کی خارجہ پولیسی کے مقاصد اور فیصلہ سازی اور بھارت کے امریکا سمیت دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھارت میں ہندو انتہا پسندی سے سیکولرزم کو شدید خطرہ لاحق‘

ڈینیئل مارکی کا بالا کوٹ فضائی حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ بالاکوٹ فضائی حملہ، اس کے بعد جھڑپوں اور بھارت کے پاکستان کے اندر دہشت گرد کیمپ تباہ کرنے اور پاکستانی ’ایف 16‘ لڑاکا طیارہ گرانے کے جھوٹے دعوے امریکا میں بھارت کی ساکھ اور اس کی خطے کے غیر معمولی حالات کے دوران مواصلات کی حکمت عملی سے متعلق کئی سوالات کو جنم دے چکے ہیں۔

اگرچہ بھارت اب بھی پاکستان کو ڈرانے میں اپنی ناکامی قبول کرنے سے انکاری ہے، تاہم امریکی اسکالرز اور دفاعی ماہرین نے صرف بھارتی طیارہ تباہ ہونے کی تصدیق کی ہے جس کا ایک پائلٹ بھی پکڑا گیا جس کو بعد میں واہگہ بارڈر کے ذریعے واپس روانہ کیا گیا تھا۔

جریدے میں امریکی پالیسی سازوں پر یہ تسلیم کرنے پر زور دیا گیا ہے کہ اگر بھارتی رہنما آزاد میڈیا اور مقامی لوگوں کے دباؤ پر کم مجبوری محسوس کرتے ہیں، تو وہ حکمت عملی اور سیاسی فائدے کے لیے خطرات مول لینے کے لیے زیادہ تیار ہو سکتے ہیں۔

جریدے میں بھارت کی مسلمان مخالف پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے جب تک بھارتی پالیسیاں مسلم اور دیگر اقلیتی گروہوں کے خلاف ہیں اس کا تاثر متاثر ہوتا ہے جبکہ بھارت کے ہمسایہ ممالک اس کو ایک تکثیری جمہوریت سمجھنے سے انکاری ہیں۔

مزید پڑھیں: مودی سرکار کا مذہبی آزادی پر ایک اور حملہ، مسلمانوں کو گائے کی قربانی سے روک دیا

مصنف نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح سے بھارت کا خطے میں اثر و رسوخ کم ہوگا جبکہ مالی بوچھ برداشت کرنے کی صلاحیت کے باعث جنوبی ایشیا میں چین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا۔

تحقیقی پییر میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی بہت بڑی مسلم آبادی نئی دہلی کے لیے دنیا بھر میں مسلم اکثریتی ریاستوں کے ساتھ قریبی تعلقات کو استوار کرنے کے لیے ایک قدرتی پُل کے طور پر کام کر سکتی ہے، لیکن بڑھتا ہوا اکثریتی، ہندوتوا بھارت اپنے آپ کو باقی مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کو سنبھالنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کو کم از کم اتنا نقصان ضرور ہوتا ہے کہ وہ اپنے علاقائی حریف پاکستان کے خلاف سفارتی پوائنٹ اسکور کرنے کا موقع گنوا دیتا ہے، ایک ایسی ریاست جسے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے وطن کے طور پر بنایا گیا ہے، اگر بھارت خود کو یکساں طور پر سب مذاہب کے شہریوں کے لیے برابر کا ملک ثابت کرتا ہے تو پاکستان بنانے کے اس محرک سے انکار کردیا جائے گا۔

پیپر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2019 میں جب مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کارکنوں کو حراست میں لینے اور ریاست کی خصوصی نیم خودمختار آئینی حیثیت کو منسوخ کرنے کے اپنے فیصلے کے خلاف کسی بھی پرتشدد احتجاج کو روکنے کے لیے سیکیورٹی انتظامات بڑھائے تو پولیس کے اخراجات دوگنا ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستان انتہاپسند ریاست بننے کے قریب؟

مصنف نے نشاندہی کی ہے کہ بڑے پیمانے پر مظاہرے جانوں اور املاک کو تباہ کرتے ہیں، معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ریاستی ٹیکس کو کم کرتے ہیں، نئی دہلی کے 2020 کے فرقہ ورانہ فسادات کئی دہائیوں میں بدترین تھے اور مبینہ طور پر 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی املاک کا تباہ کر دیا تھا، مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاست کی طرف سے نافذ لاک ڈاؤن کے چار ماہ کے دوران جی ڈی پی میں اندازً 2 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

پیپر میں امریکا کی خارجہ کمیٹی برائے تعلقات کے چیئرمین سینیٹر رابرٹ میننڈیز کے مارچ 2021 کے ایک خط کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

خود کو امریکا اور بھارت کے قریبی تعلقات کا حامی قرار دینے والے سینیٹر میننڈیز نے خط میں لکھا تھا کہ امریکا - بھارت شراکت داری اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب مشترکہ جمہوری اقدار پر مبنی ہو اور بھارتی حکومت ان اقدار سے دور ہو رہی ہے۔

بچپن کے علاوہ شوبز میں بھی ’جنسی ہراسانی‘ کا نشانہ بنی، عائشہ عمر

پی ایس ایل 7: سلطانز کی مسلسل دوسری فتح، قلندرز کو 5 وکٹوں سے شکست

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے فی لیٹر تک اضافے کا امکان