نقطہ نظر

کہانی: ’آدمی اتنا مہنگا تھوڑی ہوتا ہے‘

اس کے باپ نے ہمیشہ کی طرح اسے نظرانداز کردیا جیسے وہ وہاں تھا ہی نہیں۔ آخری بار اس کے باپ نے 6 ماہ پہلے یہ پوچھنے کے لیے بلایا تھا

کہانی نمبر ایک: خوف سے باہر


میاں بیوی کے رشتے میں کم از کم ایک کو ضرور بہادر ہونا چاہیے مگر وہ دونوں ہی خوف میں مبتلا تھے۔ ایک آدھ نہیں ان دونوں کو کئی طرح کے خوف جکڑے ہوئے تھے۔

مثلاً بیوی کو اپنی بڑھتی عمر اور اولاد نہ ہونے کا خوف، اس کی ایک بہن کے رشتے نہ آنے کا خوف۔ اسی طرح گھر کے 3 کمروں میں سے آخری میں جانے کا خوف کہ اسے محسوس ہوتا تھا جیسے وہاں کچھ ہے۔ کمروں کے فرش اور بستر کی چادروں کے گندا ہوجانے کا خوف، جس کی وجہ سے کمروں کا فرش عموماً گیلا رہتا اور وہ دونوں میاں بیوی زکام کا شکار رہتے اوریہ خوف سب سے بڑھ کر تھا کہ اس کا شوہر دوسری شادی کرلے گا۔

شوہر کو نوکری سے نکال دیے جانے کا خوف لاحق تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے باس کی ہروقت خوشامد کرتا رہتا حتٰی کہ وہ اسے خوش کرنے کے لیے اس کے بچوں کو اسکول لے جانے اور واپس لانے کا کام بھی کرتا تھا۔ اس کی ایک محبوبہ بھی تھی جسے گنجے لوگ اچھے نہ لگتے اور وہ جب گیلے بالوں میں کنگھی کرتا تو اپنے ٹوٹے ہوئے بال دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتا۔ اسے یہ خوف بھی تھا کہ کسی شام جب وہ گھر لوٹے گا تو اس کی بیوی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔

ایک دن اس آدمی نے بہادری کا مظاہرہ کیا اور اپنی محبوبہ کو دوسری بیوی بناکر گھر لے آیا۔ اس کی پہلی بیوی جو اپنے بوڑھے ماں باپ کے پاس واپس نہیں جاسکتی تھی، روتے ہوئے تیسرے کمرے میں چلی گئی، ایسے میں وہ بھول گئی کہ وہاں کچھ ایسا ہے جس سے وہ ڈرتی ہے۔ وہ یہ سوچ کر مسلسل روتی رہی کہ اب بھری دنیا میں اس کا کون ہوگا اور اس کا شوہر دوسرے کمرے میں ہنستا رہا، بغیر سوچے سمجھے ہنستا رہا۔ دن گزرتے گئے اور اسے اب اپنے بالوں کی چنداں فکر نہ رہتی۔

پہلی بیوی اب تیسرے کمرے میں رہنے لگی، جس کا فرش ہمیشہ خشک رہتا اور کمرے میں موجود زنگ آلود کھڑکی اکثر کھلی رہتی یہاں تک کہ اس کھڑکی سے ہاتھ نکل آئے اور وہ بے خوف ہوکر کھڑکی کے پار اتر گئی۔


کہانی نمبر دو: بے چہرگی کا دُکھ


وہ مئی کے مہینے کی ایک گرم دوپہر تھی۔ وہ نوجوان دریا میں نہا رہا تھا اور کوئی بھی اس کی جانب متوجہ نہیں تھا۔ تبھی اس کے پاؤں کسی نرم سی شے سے ٹکرائے۔ اس نے جُھک کر ہاتھ کی مدد سے زیرِ آب اس جگہ کو ٹٹولا۔ ہاتھوں کی مدد سے اس نے مٹی کو ہٹایا اور باہر نکال کر دیکھا تو وہ ایک گول آئینہ تھا۔ اس نے آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کی کوشش کی مگر کچھ نظر نہیں آیا۔ اس نے دریا کے پانی سے آئینے کو اچھی طرح دھویا یہاں تک کہ وہ چمکنے لگا۔ اس نے پھر آئینے کو اپنے آگے کرکے دیکھا مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔

'عجیب بات ہے، ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ میں نے آئینے میں شکل دیکھی ہو اور وہاں کچھ بھی دکھائی نہ دیا ہو۔ ممکن ہے یہ کوئی جادو والا خاص آئینہ ہو'، اس نے سوچا اور اِدھر اُدھر دیکھ کر احتیاط سے آئینے کو شلوار میں ڈال لیا۔

دریا سے باہر نکل کر اس نے فوراً قیمیض پہنی اور گھر کی جانب روانہ ہوا۔ راستے میں اسے کسی نے نہ دیکھا، وہ ہر ایک کی نظروں میں جھانک کر دیکھتا کہ شاید کوئی سوال کرے مگر لوگ تو یوں گزر رہے تھے جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو۔

وہ گھر میں موجود اسٹور روم میں جا گھسا جہاں پرانا متروک شدہ سامان رکھا تھا۔ وہ جب صحن سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اس کا باپ سامنے بیٹھا چرس بھرا سگریٹ پی رہا تھا، نوجوان ایک لمحے کو رُکا کہ کہیں اس کا باپ اس سے کچھ پوچھ نہ لے مگر ایسا نہیں ہوا۔

اس کے باپ نے ہمیشہ کی طرح اسے یکسر نظرانداز کردیا ہو جیسے وہ وہاں تھا ہی نہیں۔ آخری بار اس کے باپ نے اسے 6 ماہ پہلے یہ پوچھنے کے لیے بلایا تھا کہ تمہارا نام کیا ہے، دراصل باہر ایک حکومتی ٹیم گھروں کے کوائف اکٹھے کررہی تھی۔ اسٹور روم میں اس نے احتیاط کے ساتھ آئینہ نکالا، کمرے کی بتی جلائی اور آئینے پر جھک گیا، مگر وہاں اب بھی کچھ نہیں تھا۔

'یہ تو عجب بھید ہے۔ میرا چہرہ دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ حالانکہ آئینے پر کوئی گرد بھی نہیں، یہ دھندلا بھی نہیں۔ ایسا صاف آئینہ تو میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا پھر یہ میری شکل کیوں نہیں دکھاتا؟'، اس نے سوچا مگر کچھ سمجھ نہیں آیا۔

وہ اگلے 3 دن تک آئینے کو چھپائے اِدھر اُدھر پھرتا رہا۔

'آخر میں یہ راز کس کو بتاؤں؟ اس آئینے کو ضرور کسی جوہری کو دکھانا چاہیے۔'

اس شہر میں ایک پرانے سامان کا تاجر تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ وہ نوجوان اس کے پاس گیا اور بہت احتیاط سے آئینہ اس کے سامنے رکھ کر کہنے لگا 'یہ آئینہ بیچنا تھا، کیا دام دیں گے؟'

تاجر نے آئینہ ہاتھوں میں اٹھایا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔

'یہ کون خریدتا ہے بھئی۔ یہ کوئی ایسا خاص آئینہ نہیں۔ میں پُرانا سامان ضرور خریدتا ہوں مگر بہت خاص چیزیں، یہ تو بالکل عام سا ہے'، تاجر نے یہ کہا اور آئینے میں دیکھ کر اپنے بال درست کرنے لگا۔

'مگر یہ آئینہ تو بہت خاص ہے'، نوجوان نے کہا۔

'کیا خاص بات ہے اس میں؟'

'اس میں... اس میں چہرہ دکھائی نہیں دیتا'، نوجوان نے ہکلاتے ہوئے کہا۔'مجھے تو اپنا چہرہ دکھائی دے رہا ہے'، تاجر نے ہنستے ہوئے کہا۔

'لیکن میں 3 روز سے دیکھ رہا ہوں، مجھے اپنا چہرہ دکھائی نہیں دیتا'، نوجوان نے کہا۔

'تمہارا چہرہ؟ تمہارا چہرہ تو مجھے بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ بس آواز آرہی ہے۔ بہت مِٹا مِٹا سا چہرہ ہے'۔

'کیا مطلب؟ آپ میرا چہرہ نہیں دیکھ پارہے؟'، نوجوان نے گھبرا کر کہا۔

'کچھ دھندلا سا ہے تاہم صاف نظر نہیں آرہا'، تاجر نے جواب دیا۔

نوجوان آئینہ وہیں چھوڑ کر گھر بھاگ آیا اور فوراً اسٹور روم میں جاکر چھپ گیا، جہاں وہ بچپن سے چھپتا آیا تھا۔ اس کی مضبوط پناہ گاہ۔


کہانی نمبر تین: دوڑ


وہ لمبی ریس کا گھوڑا ہے سو آہستہ بھاگتا ہے۔

وہ آہستہ بھاگتا ہے کیونکہ وہ لمبی ریس کا گھوڑا ہے۔

وہ گھوڑا ہے۔

لمبی ریس ہے۔

’سُست، نکمے، تم تیز کیوں نہیں بھاگتے'، دنیا نے اس سے کہا۔

اب وہ مختصر ریس کا گھوڑا ہے سو تیز بھاگتا ہے۔

وہ تیز بھاگتا ہے کیونکہ وہ مختصر ریس کا گھوڑا ہے۔

وہ گھوڑا ہے۔

مختصر ریس ہے۔


کہانی نمبر چار: آدمی برائے فروخت


'بھئی خرید لو! اس سے بڑھ کر سستا آدمی آپ کو کہیں نہیں ملے گا'۔

'2 ماہ کا گھر کا کرایہ، بجلی، گیس کا بل اور گھر کا راشن مہیا کیجیے اور پورا آدمی خرید لیجیے۔'

'مکمل آدمی؟'، ہجوم میں سے کسی نے پوچھا۔

'جی بالکل مکمل آدمی... مکمل غلام'۔

لوگ تصویریں بناتے ہوئے آگے بڑھنے لگے، اسٹیٹس اپڈیٹ ہوتے رہے مگر آدمی کو کسی نے نہیں خریدا۔

آدمی کی آواز اونچی ہوگئی۔

'جناب! آپ کا خادم، آپ کا غلام ابھی بھی موجود ہے، خرید لیجیے۔ اب تو قیمت اور کم ہوگئی ہے، صرف گھر کا کرایہ اور بچوں کا راشن دیجیے'۔

''بہت زیادہ قیمت ہے بھئی ہم نہیں خریدتے'، ہجوم میں اکثر لوگوں نے کہا۔

قیمت اور کم ہوگئی ہے۔

’صرف کھانے کو دیجیے اور خرید لیجیے۔'

'نہیں بھئی، ہم نہیں خریدتے۔ آدمی اتنا مہنگا تھوڑی ہوتا ہے۔'

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔