پاکستان

میر شکیل الرحمٰن کی بریت چیلنج کرنے کیلئے نیب کا مسودہ تیار

کیس کا فیصلہ اس وقت تک میرٹ پر نہیں ہوسکتا جب تک استغاثہ کو اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا مساوی موقع نہ دیا جائے، نیب

قومی احتساب بیورو (نیب) نے جنگ اور جیو میڈیا گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن اور ان کے علاوہ دیگر دو لوگوں کے خلاف 34 سال پرانے غیر قانونی زمین الاٹمنٹ ریفرنس میں بریت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے مسودہ تیار کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب بریت کا فیصلہ رواں ماہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گا۔

احتساب عدالت نے پیر کے روز جنگ گروپ کے ایڈیٹر اِن چیف اور لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل ہمایوں فیض رسول اور ڈائریکٹر آف لینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میاں بشیر احمد کو اس کیس میں بری کیا تھا۔

مجوزہ مسودے کے مطابق نیب کا کہنا ہے کہ عدالت کی جانب سے استغاثہ کے اہم گواہان کے بیانات کا جائزہ لینا ابھی باقی ہے، کیس کا فیصلہ اس وقت تک میرٹ پر نہیں ہوسکتا جب تک عدالت کے سامنے استغاثہ کو گواہان اور ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے ذریعے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا مساوی موقع نہ دیا جائے۔

مسودے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت نے اپنا دراصل عدالتی ذہن استعمال نہیں کیا اور غلطیاں کیں، نیب کا کیس مارکیٹ قیمت کے بجائے ریزرو قیمت کی ادائیگی سے متعلق نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اراضی الاٹمنٹ کیس: احتساب عدالت نے میر شکیل الرحمٰن کو بری کردیا

نیب کا کہنا ہے کہ عوامی سہولت کی چیزیں جیسے سڑکوں کو الاٹ کرنا اختیارات کا غلط استعمال قرار دیا جاسکتا ہے، جیسا کہ کیا کوئی سڑک کی مسابقتی مارکیٹ قیمت پیش کر کے مال روڈ کو خرید سکتا ہے؟

مسودے میں مزید کہا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کو جرم میں معاون سمجھ کر عدالت نے حقیقی غلطی کی، دراصل وہ تو معاملے سے فائدہ اٹھانے والے تھے، وہ اس کیس میں غیر قانونی فائدہ اٹھانے والے شخص تھے جبکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک نکتے کو نظر انداز کیا۔

مسودے میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت نے پیش کیے گئے مکمل ریکارڈ کا جائزہ نہیں لیا، ریفرنس کے ساتھ منسلک ریکارڈ کے مطابق پرائس اسسمنٹ کمیٹی (پی اے سی) کی سربراہی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل اور ایل ڈی اے کے مختلف محکموں کے 4 ڈائریکٹر کر رہے تھے، مزید برآں نیب کی ہدایت پر پرائس اسسمنٹ کمیٹی بنانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے، اس لیے عدالت کے ریمارکس حقائق کے خلاف ہیں۔

نیب کے تیار کردہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ نیب نے ملزمان کے خلاف جرم میں ملوث ہونے پر ریفرنس دائر کیا، تفتیش کے دوران ایل ڈی اے کے دیگر افسران کے خلاف کوئی فعال کردار نہیں ملا، اسی لیے کسی اور ڈی جی یا ڈائریکٹر کو ملزم کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: میر شکیل الرحمٰن کی 8 ماہ بعد ضمانت منظور

سمری میں ملزم میر شکیل الرحمٰن کو دو گلیوں کی الاٹمنٹ میں شامل کرنے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ عدالت نے کیس کے اہم ترین گواہ و وزیر اعلیٰ پنجاب کے اس وقت کے سیکریٹری سید جاوید اقبال کا بیان ریکارڈ نہیں کیا اور مقدمے کا فیصلہ اپنے طور پر ہی کرلیا۔

مسودے میں مزید مؤقف اپنایا گیا ہے کہ اس کے علاوہ ایل ڈی اے 1975 کے یو۔ایس 14 کے تحت کسی بھی اختیارات کا استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ وزیر اعلیٰ کو بھیجی گئی غیر قانونی سمری میں کہا گیا ہے کہ اس تجویز کو ایک خصوصی کیس کے طور پر دیکھا جائے اور اس کو مثال کے طور پر حوالہ نہیں دیا جائے گا۔

تیار شدہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ نیب کیس محض استثنیٰ کی پالیسی کی خلاف ورزی پر مبنی نہیں تھا، بلکہ یہ ملزم میر شکیل الرحمٰن کو دیگر ملزمان، عوامی عہدیداران کی جانب سے اپنے ذاتی فائدے کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے سرکاری خزانے کی قیمت پر میر شکیل الرحمٰن کو غیر قانونی فائدہ پہنچانا تھا۔

مزید پڑھیں: غیر قانونی پلاٹس الاٹمنٹ اسکینڈل: میر شکیل کی ضمانت کی درخواست مسترد

نیب مسودے میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ بدنیتی، ٹرائل مکمل ہونے سے پہلے جانچی نہیں جا سکتی اور نیب کے اہم گواہان کے بیانات ریکارڈ ہونا ابھی باقی ہیں۔

نیب نے الزام لگایا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی ملی بھگت سے لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن بلاک ایچ میں ایک، ایک کنال کے 54 پلاٹ کا غیر قانونی طور پر استثنیٰ حاصل کیا۔

یاد رہے کہ نیب نے میر شکیل الرحمٰن کو مارچ 2020 میں گرفتار کیا تھا، سپریم کورٹ نے نومبر 2020 میں انہیں ضمانت دی تھی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو ان کی اس کیس میں مسلسل غیر حاضری کے باعث اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے۔

پی ایس ایل سیزن 7: کیا اب ٹاس جیتنے کا مطلب میچ جیتنا نہیں رہا؟

بھارت سے تعلقات بہتر ہوئے تو نریندرمودی ایک ماہ میں پاکستان آسکتے ہیں، میاں منشا

یوٹیوبر مورو ’پرستان‘ کے ذریعے ٹی وی ڈیبیو کرنے کو تیار