صحت

کووڈ کے کچھ مریضوں میں الزائمر جیسی تبدیلیاں آسکتی ہیں، تحقیق

کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے دماغ میں ایسی تبدیلیاں آسکتی ہیں جو الزائمر کے شکار مریضوں میں دریافت ہوتی ہیں۔

کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے دماغ میں ایسی تبدیلیاں آسکتی ہیں جو الزائمر امراض کے شکار مریضوں میں دریافت ہوتی ہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

کولمبیا یونیورسٹی ویگلوس کالج آف فزیشنز کی اس تحقیق سے لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے مریضوں میں یادداشت کے مسائل کی وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے۔

مگر محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق چھوٹے پیمانے پر ہوئی کیونکہ اس میں کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے محض 10 افراد کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی اور اس حوالے سے زیادہ بڑی تحقیق کی ضرورت ہے۔

سائنسدانوں کو اس تحقیق کا خیال اس وقت آیا جب کووڈ کو شکست دینے والے افراد میں دماغی دھند اور دیگر علامات کے تسلسل کی ابتدائی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔

اسی کو دیکھتے ہوئے تحقیق میں دیکھا گیا کہ دماغ کے مخصوص مالیکیولز ریانوڈائن ریسیپٹرز کس حد تک کووڈ سے متاثر ہوتے ہیں۔

ان ریسیپٹرز میں خامیوں کو سابقہ تحقیقی رپورٹس میں الزائمر کا خطرہ بڑھانے والے عنصر phosphorylated tau نامی پروٹین سے جوڑا گیا تھا۔

اس نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کے دماغ میں phosphorylated tau کی سطح بہت زیادہ بڑھ گئی تھی جبکہ وہ ریسیپٹرز بھی متاثر ہوئے تھے۔

تحقیق میں phosphorylated tau کو دماغ کے ان حصوں میں دریافت کیا گیا جہاں الزائمر کے امراض میں اسے دیکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے حصوں میں بھی اس کی سطح بڑھ گئی جہاں الزائمر کے مریضوں میں دیکھنے میں نہیں آتی۔

تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ کووٖڈ کے مریضوں میں phosphorylated tau کی موجودگی اس بات کی نشانی ہوسکتی ہے کہ وہ الزائمر کے ابتدائی مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں جبکہ یہ کووڈ کے مریضوں میں نظر آنے والے دیگر دماغی علامات میں بھی کردار ادا کرتا ہوگا۔

محققین نے کہا کہ دماغ میں اس مخصوص پروٹین کی سطح بڑھنے کو الزائمر میں یادداشت کے مسائل کے ساتھ مسلک کیا جاتا ہے اور ایسے ہی مسائل کا سامنا لانگ کووڈ کے مریضوں کو بھی ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ دماغ میں ہونے والی اضافی تبدیلیوں کے پیش نظر لگتا ہے کہ بیماری کی شدت زیادہ ہونے پر متحرک ہونے والے مدافعتی ردعمل سے دماغ میں ورم بڑھتا ہے، جو ریسیپٹرز کو غیرفعال کردیتا ہے جس کے باعث phosphorylated tau کی سطح بڑھتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ایک ممکنہ نتیجہ یہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ کووڈ کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد میں بعد کی زندگی میں الزائمر کا مرض ابھر سکتا ہے، مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کے بعد ہی ٹھوس نتیجہ نکالا جاسکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے الزائمر اینڈ ڈیمینشیا : دی جرنل آف دی الزائمرز ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے۔

کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین سے دل کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بڑھنے کا انکشاف

حاملہ خواتین سے کورونا وائرس بچوں میں منتقل ہونے کا امکان کیوں نہیں ہوتا؟

انسانوں کو دانستہ طور پر کووڈ سے متاثر کرنے کے ٹرائل کا اولین ڈیٹا سامنے آگیا