نقطہ نظر

کوئٹہ-اسلام آباد معرکہ، ایک مقابلہ کپتانوں کا

اگر اسلام آباد–کوئٹہ معرکے کو زخمی شیروں کا مقابلہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ دونوں ٹیمیں کئی اہم کھلاڑیوں سے محروم ہوچکی ہیں۔

ہم تو سمجھ رہے تھے کہ یہ مقابلہ اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا ہے، لیکن یہاں تو ساری زور آزمائی دونوں کپتانوں کے درمیان رہی، ایک اِن فارم اور ایک آؤٹ آف فارم کپتان کے مابین۔

ایک کپتان سیزن کا کامیاب ترین باؤلر ہے، بیٹنگ میں اس کا بلّا رنز اگل رہا ہے تو فیلڈنگ میں بھی کمالات دکھا رہا ہے جبکہ دوسری جانب ایسا قائد ہے کہ جس کی انفرادی کارکردگی پر سوالیہ نشانات ہیں اور قیادت کے انداز پر بڑے اعتراضات۔ \قذافی اسٹیڈیم میں ایک سنسنی خیز معرکہ آرائی میں ان دونوں کپتانوں شاداب خان اور سرفراز احمد نے قائدانہ کردار ادا کیا اور بالآخر آخری وار کا موقع سرفراز احمد کو ملا، جن کی شاندار نصف سنچری کی بدولت کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اہم کامیابی حاصل کی۔


مقابلہ زخمی شیروں کا


اگر اسلام آباد–کوئٹہ معرکے کو زخمی شیروں کا مقابلہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ دونوں ٹیمیں اپنے کئی اہم کھلاڑیوں سے محروم ہوچکی ہیں۔ اسلام آباد، جس کا انحصار ہمیشہ غیر ملکی ٹاپ آرڈر بلّے بازوں پر ہوتا ہے، اسے کئی دھچکے پہنچے ہیں۔ ایک تو اِن فارم کولن منرو زخمی ہوگئے ہیں جبکہ دوسرے طوفانی اوپنر پال اسٹرلنگ قومی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے جاچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد 4 تبدیلیوں کے ساتھ میدان میں اترا۔

دوسری جانب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مسائل ہیں، پہلے اہم باؤلر محمد حسنین پر پابندی لگی اور اب محمد نواز زخمی ہوکر سیزن ہی سے باہر ہوچکے ہیں۔ اس لیے انہیں عمر اکمل کو پہلی بار موقع دینا پڑا جبکہ افغانستان کے نوجوان باؤلر نور احمد کو بھی کھلایا۔


ٹاس پر اعتراض


ٹاس سرفراز احمد نے جیتا اور پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا جس پر کئی ماہرین نے حیرت کا اظہار کیا۔ شاید اس لیے کہ لاہور پہنچنے کے بعد ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا انتخاب کرنے والی دونوں ٹیموں کو شکست ہوئی بلکہ اب تک کوئی میچ نہ ہارنے والے ملتان سلطانز بھی ہدف کا کامیابی سے تعاقب نہیں کر پائے۔

لیکن آخر میں سرفراز احمد کا فیصلہ بالکل درست ثابت ہوا کیونکہ اوس پڑنے کی وجہ سے اسلام آباد کے باؤلرز گیند پر گرفت نہیں رکھ پا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد وسیم کی یارکر کرنے کی کوششیں بُری طرح ناکام ہوئیں اور اہم ترین 19ویں اوور میں انہیں ایک چوکا اور 2 کرارے چھکے پڑے۔

بلاشبہ اس جگہ پر اگر کوئٹہ کے باؤلرز ہوتے تو ان کا حشر بھی یہی ہوتا کیونکہ اسلام آباد کی بیٹنگ لائن بہت طویل ہے اور ان کی آخری وکٹ بھی بیٹنگ کرنا خوب جانتی ہے۔


میچ کے ہیروز


ویسے کس نے سوچا ہوگا کہ اس میچ میں شاہد آفریدی، عمر اکمل اور سرفراز احمد کارکردگی دکھائیں گے؟ شاہد آفریدی تو اسی اسلام آباد کے خلاف گزشتہ میچ میں 4 اوورز میں 67 رنز کھا چکے تھے۔ عمر اکمل کا تو یہ اس سیزن میں پہلا مقابلہ تھا جبکہ سرفراز احمد کے بارے میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس وقت بدترین تنقید کی زد میں تھے۔

بہرحال، آج تینوں چلے اور خوب چلے۔ ویسے تو شاہد آفریدی کو حیران کُن طور پر دن کا پہلا اوور تھمایا گیا تھا، لیکن دراصل یہ اننگ کا 11واں اوور تھا جس سے 'لالا' نے اپنا جادو دکھانا شروع کیا۔

تب اسکور بورڈ پر 100 رنز موجود تھے اور اسلام آباد کی صرف ایک وکٹ گری تھی۔ یونائیٹڈ ایک بہت بڑے اسکور کے لیے پَر تول رہے تھے، بالکل پچھلے میچ کی طرح کہ جس میں یونائیٹڈ نے کوئٹہ کے خلاف 229 رنز بنائے تھے۔ لیکن یہاں شاہد آفریدی فرق ثابت ہوئے۔ ان کے ایک ہی اوور میں 3 وکٹیں گریں، پہلے شاداب خان کیچ آؤٹ ہوئے، 2 گیندوں بعد ایلکس ہیلز رن آؤٹ ہوئے اور نئے آنے والے بلے باز محمد اخلاق ایک گیند کے مہمان ثابت ہوئے۔

ابھی اسلام آباد اس دھچکے سے سنبھل ہی نہیں پایا تھا کہ اگلے اوور کی پہلی گیند پر شاہد آفریدی کی براہِ راست تھرو نے اعظم خان کو بھی چلتا کردیا۔ شاہد آفریدی میچ کا پانسہ پلٹ چکے تھے۔

جب افغان نوجوان نور احمد نے آصف علی کی وکٹ لی تو صرف 14 گیندوں پر 9 رنز کے اضافے کے ساتھ اسلام آباد کی 5 وکٹیں گر چکی تھیں۔

لمحہ بھر پہلے ایسے لگتا تھا کہ سب کچھ اسلام آباد کے ہاتھ میں ہے، لیکن چند گیندوں میں نقشہ بدل چکا تھا۔ اب بازی مکمل طور پر کوئٹہ کے ہاتھوں میں تھی، مگر یہاں فہیم اشرف نے اپنی زندگی کی بہترین اننگ میں سے ایک کھیلی۔ جب 109 رنز پر 6 کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے، تب انہوں نے 28 گیندوں پر 55 رنز کی بہترین اننگ کھیلی اور آخری اوور میں محمد وسیم کے چھکوں نے اسکور کو 199 تک پہنچا دیا۔ یعنی معاملہ برابری کی سطح پر آچکا تھا۔


ڈبل سنچری اور قذافی اسٹیڈیم


ویسے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی تاریخ میں کبھی کسی ٹیم نے قذافی اسٹیڈیم میں 200 رنز کا ہدف عبور نہیں کیا تھا۔ لیکن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اس سیزن میں لاہور قلندرز کے خلاف کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں 205 رنز کا ہدف کامیابی سے حاصل کرچکا تھا، اس لیے وہ یہاں بھی ہدف تک پہنچنے کے لیے پُر اعتماد تھا۔


شاداب و کامران


جیسن روئے کی بدولت کوئٹہ آٹھویں اوور تک بغیر کسی نقصان کے 88 رنز بنا چکا تھا۔ معاملہ ہاتھ سے نکلتا محسوس کرتے ہوئے شاداب خان خود میدان میں آئے، پہلے روئے کی 27 گیندوں پر 54 رنز کی اننگ کا خاتمہ کیا، رنز کے بہاؤ کو روکا اور پھر جیمز وِنس اور افتخار احمد کی قیمتی وکٹیں بھی حاصل کرلیں۔ ان کے 4 اوورز میں صرف 25 رنز بنیں اور 3 کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ اسے میچ وننگ پرفارمنس سمجھا جا رہا تھا کیونکہ اب بازی اسلام آباد کے ہاتھوں میں تھی۔


'ٹارزن' کی واپسی


آخری 4 اوورز میں 57 رنز کی ضرورت تھی اور کپتان سرفراز کے ساتھ کریز پر عمر اکمل موجود تھے جو عرصے بعد پی ایس ایل میں نظر آ رہے تھے۔ عمر نے صرف 8 گیندوں پر 3 چھکوں کی مدد سے 23 رنز بناکر میچ کو مکمل طور پر کوئٹہ کے حق میں جھکا دیا اور ثابت کیا کہ ان میں اب بھی دم خم باقی ہے۔ سرفراز نے بھی آخر میں یہی کہا کہ بلاشبہ ہمارے ٹاپ آرڈر نے بہترین کارکردگی دکھائی، لیکن یہ عمر اکمل کی اننگ تھی، جس نے میچ کو کوئٹہ کے حق میں جھکایا۔

سرفراز کی سرفرازی


ویسے سرفراز کی اننگ میں وہ شاٹ دیکھنے والا تھا جو انہوں نے 18ویں اوور کی پہلی گیند پر حسن علی کو مارا تھا۔ پھر آخری اوور میں درکار 8 رنز بنانے کے لیے انہوں نے تیسری اور چوتھی گیند پر چوکے بھی لگائے اور یوں کوئٹہ نے مسلسل دوسرے میچ میں 200 رنز کا ہدف حاصل کرلیا۔

سرفراز کی 32 گیندوں پر ناٹ آؤٹ نصف سنچری نے بہت سے ناقدین کے منہ بند کردیے ہوں گے۔ لیکن 'کام ابھی باقی ہے' سرفراز بھائی! ابھی بہت کچھ کرنا ہے کیونکہ اس کامیابی کے بعد لیگ کافی حد تک کُھل چکی ہے۔

پوائنٹس ٹیبل پر ملتان اور لاہور سرِفہرست ہیں، جبکہ اسلام آباد اور کوئٹہ 6، 6 میچوں میں اتنے ہی پوائنٹس کے ساتھ درمیان میں موجود ہیں۔ پشاور اور کراچی آخری نمبروں پر پڑے ہیں، زلمی کے پاس تو چلیں پھر بھی 2 کامیابیوں کی بدولت 4 پوائنٹس موجود ہیں، مگر کراچی تو اپنے آدھے میچ کھیل لینے کے باوجود اب تک تہی دامن ہے۔ بابر اعظم کو سرفراز احمد کی طرح خود آگے بڑھ کر معاملات اپنے ہاتھ میں لینے چاہئیں کیونکہ اب ان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔