پاکستان

اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود نیب ترمیمی قانون سے متعلق 2 بل قائمہ کمیٹی سے منظور

اپوزیشن ارکان نے چیئرمین قائمہ کمیٹی ریاض فتیانہ پر تنقید کرتے ہوئے بلوں کی منظوری میں ان کے کردار کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا۔
|

چیئرمین نیب کی تعیناتی کے اختیار سمیت نیب ترمیم قانون سے متعلق دو بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اپوزیشن کے شدید احتجاج و تحفظات کے باوجود منظور کر لیے۔

چیئرمین ریاض فتیانہ کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس ہوا، کمیٹی نے چیئرمین نیب کی تعیناتی کے اختیار اور نیب قانون میں ترمیم سے متعلق حکومت کے تجویز کردہ دونوں بل کثرت رائے سے منظور کر لیے، بل کے حق میں 9 اور اپوزیشن کی جانب سے بل کی مخالفت میں 7 ووٹ ڈالے گئے۔

اجلاس کے دوران قومی احتساب ترمیمی بلوں پر غور کیا گیا، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ ان ترامیم کا میکانزم اور طریقہ کار واضح نہیں ہے، اس میں ابہام ہے، ہمیں ابھی ان بلوں پر مزید غور و خوض، بحث و مباحثے اور تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین قائمہ کمیٹی کا احتساب آرڈیننس ترمیمی بلز پر ووٹنگ کی اجازت دینے سے انکار

تاہم کمیٹی کے چیئرمین و پی ٹی آئی رہنما ریاض فتیانہ کا کہنا تھا کہ ان ترامیم پہ کافی بحث ہوگئی ہے، اب ووٹنگ کر لیتے ہیں۔

اس پر سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ ان بلوں پر ابھی بحث ہو رہی ہے، آپ تھوڑا صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور کچھ وقت دیں جس پر ریاض فتیانہ کا کہنا تھا کہ ان بلوں پر ہم سیر حاصل بحث کرچکے ہیں اور اب ان پر مزید بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے اب ووٹنگ کرائی جاتی ہے۔

اپوزیشن کا احتجاج

چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ جو اراکین ان مجوزہ ترامیم کے حق میں ہیں وہ ہاتھ اٹھائیں، اس موقع پر اپوزیشن رکن سید نوید قمر نے کہا کہ یہ مناسب طریقہ کار نہیں ہے، ہم اس عمل کا حصہ نہیں بن سکتے، یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، آپ نے ان بلوں کی منظوری کے لیے کمیٹی کی کمپوزیشن تبدیل کی۔

اپوزیشن نے چیئرمین کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کردیا۔

نیب قانون میں ترمیم سے متعلق بل منظور کرنے پر قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں شامل اپوزیشن کے ارکان نے ریاض فتیانہ پر سخت تنقید کی اور ان بلوں کی منظوری میں ان کے کردار کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا۔

اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ چیئرمین کمیٹی ٹھیک نہیں کر رہے، ریاض فتیانہ جو عمل اپنا رہے ہیں وہ شرمناک ہے۔

مزید پڑھیں: ایک ماہ سے کم عرصے میں نیب قوانین میں ترامیم کا نیا آرڈیننس جاری

پیپلز پارٹی کے ہی رکن قومی اسمبلی قادر خان مندوخیل کا چیئرمین کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چیئرمین کمیٹی غلط کر رہے ہیں، آغا حسن کو نکال کر ملک عمر اسلم خان کو کمیٹی میں شامل کرلیا گیا۔

اجلاس کے دوران ایک موقع پر قادر مندو خیل اور عطااللہ کے درمیان گرما گرمی اور تندو تیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوا اور دونوں نے ایک دوسرے پر لفظی وار کیے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے ووٹنگ کرانے پر ریاض فتیانہ سے سخت احتجاج کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے سیکریٹری قانون و انصاف کو فون کیا تھا کہ راستے میں ہوں، کچھ دیر میں پہنچ رہا ہوں۔

سعد رفیق نے کہا کہ موٹروے پہ بہت زیادہ دھند تھی، حد نگاہ کم ہونے کے باعث بڑی مشکل سے پہنچا ہوں، اسی وجہ سے سیکریٹری قانون و انصاف کو کمیٹی کا اجلاس ساڑھے 11 بجے شروع کرنے کی التجا کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی تک موجودہ چیئرمین کام جاری رکھیں گے، فروغ نسیم

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ رانا ثنااللہ بھی ابھی پہنچ رہے ہیں، چیئرمین کمیٹی کو معلوم تھا کہ ہم چند منٹ میں پہنچ رہے ہیں اس لیے انہوں نے جلد بازی میں بلوں کی منظوری کے لیے ووٹنگ کرادی۔

خواجہ سعد رفیق کا ریاض فتیانہ پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ جیسے آدمی سے یہ توقع نہیں تھی، ان حکمرانوں کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں جو اب زیادہ دیر اپنے عہدوں پر رہنے والے نہیں ہیں۔

'قانون سازی وزیراعظم عمران خان کی ذات کے لیے بھی نہیں'

نیب ترمیمی بل کی منظوری کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارا اللہ پر ایمان ہے، اللہ کی ذات ہمیشہ ہر اچھے کام میں مدد کرتی ہے، یہ نیب ترامیم پاکستان کے لیے ہیں، میری اپنی ذات کے لیے نہیں ہیں، یہ قانون سازی وزیراعظم عمران خان کی ذات کے لیے بھی نہیں ہے بلکہ یہ قانون سازی پاکستان کے عوام کے لیے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: نیب آرڈیننس کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

فروغ نسیم کا ریاض فتیانہ کی تعریف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف ریاض فتیانہ غیر جانبدار ہو کر اجلاس چلاتے ہیں، اجلاس کے دوران حکومت اکثریت میں تھی اس لیے اپوزیشن کے ایک رکن کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔

خیال رہے کہ حکومت پہلے ہی آرڈیننسز کے ذریعے دونوں قوانین کو نافذ کر چکی ہے۔

پہلا آرڈیننس حکومت کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کی مدت ملازمت میں ان کے جانشین کے تقرر تک توسیع دینے کی اجازت دیتا ہے جبکہ دوسرے آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب کے تقرر کا اختیار صدر مملکت کو تفویض کردیا گیا ہے۔

بلز پر بحث کے دوران اپوزیشن ارکان، حکومت کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

اپوزیشن ارکان نے چیئرمین نیب کی نامزدگی کے طریقہ کار اور ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کے بطور جج احتساب عدالتوں میں تقرر اور احتساب عدالت کے ججز کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

ہمیں عوام میں جانا ہے، تحریک عدم اعتماد کا رسک لینا چاہیے، مریم نواز

دنیا کی مقبول ترین یوٹیوب ویڈیو بے بی شارک پر اب فلم بھی بنے گی

آسٹریلین باؤلر مائیکل نیسر انجری کے سبب دورہ پاکستان سے باہر