پاکستان

نور مقدم کیس: تھراپی ورکس کے عملے پر الزام ثابت نہیں ہوا، شک کا فائدہ دیا جائے، وکیل

تفتیش کے دوران ایسی کوئی چیز سامنے نہیں آئی کہ تھراپی ورکرز نے کوئی شواہد ضائع کیے یا جائے وقوعہ سے کسی ثبوت کو مٹایا گیا، دلائل

نورمقدم قتل کیس میں نامزد ملزمان تھراپی ورکس کے وکیل نے دلائل میں کہا ہے کہ تھراپی ورکس کے عملے پر الزام ثابت نہیں ہوا لہٰذا انہیں شک کا فائدہ دیا جائے۔

اسلام آباد کی دسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت کی جہاں تھراپی ورکس کے ملازمین اور تھراپی ورکس کے چیف ایگزیکٹو طاہر ظہور کے وکیل اکرم قریشی اور مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے بھی اپنے دلائل مکمل کیے جبکہ مدعی کے وکیل شاہ خاور کے دلائل جاری ہیں۔

مزید پڑھیں: پیسہ بٹورنے کیلئے میرے اور والدین کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا گیا، ظاہر جعفر

تھراپی ورکس کے عملے کے وکیل شہزاد قریشی نے جج کو بتایا کہ وہ دلیپ کمار، وامق ریاض، ثمر عباس، عبد الحق اور امجد محمود کی وکالت کررہے ہیں۔

جج نے پوچھا کہ یہ لوگ جائے وقوع پر کس وقت پہنچے تھے تو وکیل نے جواب دیا کہ یہ لوگ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق رات 8 کے قریب جائے وقوع پر پہنچنے تھے۔

وکیل شہزاد قریشی نے کہا کہ آرٹیکل 38 کہتا ہے کہ پولیس کے سامنے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، ڈی وی آر کو دیکھیں تو ملزم بآسانی نکل سکتا تھا لیکن وہ وہی موجود رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ گھر میں تین لوگ موجود تھے، اگر شواہد مٹانے ہوتے تو مٹا سکتے تھے، کرائم سین کا انچارج عمران کہتا ہے کہ جائے وقوع سے پسٹل، چاقو و دیگر سامان برآمد ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میرے مؤکلان پر الزام ہے کہ ہم نے شواہد مٹائے ہیں لیکن کون سے شواہد مٹائے گے، ڈی وی آر کے اندر پورا واقعہ موجود ہے، ہم نے مرکزی ملزم کو گرفتار کیا لیکن وہ ویڈیو غائب کر دی گئی، جائے وقوع پر کسی نے بھی شواہد مٹانے کی کوشش نہیں کی۔

وکیل شہزاد قریشی نے کہا کہ امجد کے زخمی ہونے کے 25 منٹ بعد پولیس جائے وقوع پر پہنچتی ہے اور امجد 8 بج کر 59 منٹ پر پمز ہسپتال پہنچتا ہے، ڈی وی آر کھلنے کے بعد ثابت ہو گیا کہ میرے ملزمان نے مرکزی ملزم کو وہاں سے گرفتار کیا۔

دوران سماعت تھیراپی ورکس کے سی ای او کے وکیل اکرم قریشی نے کہا کہ پولیس نے میرے مؤکل پر شواہد چھپانے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ تفتیش کے دوران ایسی کوئی چیز سامنے نہیں آئی کہ تھراپی ورکرز نے کوئی شواہد ضائع کیے یا جائے وقوعہ سے کسی ثبوت کو مٹایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: مرکزی ملزم کی جانب سے دائر تینوں درخواستیں خارج

حتمی دلائل کے دوران اکرم قریشی نے کہا کہ پراسیکیوشن کے پاس میرے موکل کے خلاف کال ریکارڈ ڈیٹا کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔

انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اعلی عدلیہ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ کال ریکارڈ ڈیٹا کو ٹرانسکرپٹ کے بغیر ٹھوس ثبوت کے طور پر نہیں مانا جا سکتا، استغاثہ کی جانب سے پیش کی گئی کال ریکارڈ ڈیٹا کے ساتھ کوئی ٹرانسکرپٹ نہیں دیا گیا۔

وکیل اکرم قریشی نے عدالت میں تھراپی ورکس کے سی ای او اور مرکزی ملزم کے والد کے درمیان 20 جولائی کو ہونے والی گفتگو پڑھ کر سنائی۔

انہوں نے کہا کہ 20 جولائی کی شام کو 7 بج کر 4 منٹ پر ذاکر جعفر نے تھراپی ورکس کے مالک طاہر ظہور کو میسج کیا 'پلیز کال'۔

وکیل نے کہا کہ طاہر ظہور اس وقت اسلام آباد میں موجود نہیں تھے اور ان کا نمبر بھی نہیں مل رہا تھا، اس لیے انہوں نے پیغام بھیجا، دوسرے پیغام میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے ڈاکٹر ارم سے طبی امداد کے لیے رابطہ کیا ہے جبکہ تیسرے میسج میں لکھا ہے کہ ظاہر جعفر کو فوری طور پر داخل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کے بیان کے مطابق وہ جائے وقوع پر 9 بج کر 30 منٹ پر پہنچ چکے تھے اور انہیں یہ اطلاع کس نے دی اس بارے میں کسی نے نہیں بتایا جبکہ تھراپی ورکس کے ملازمین نے خود پولیس کو اطلاع دے دی تھی اور اگر وہ کوئی شواہد مٹانے وہاں گیے ہوتے تو کیا ملزم ان پر چاقو سے حملہ کرتا۔

وکیل نے کہا کہ تھراپی ورکس کے ملازمین وہاں دو گھنٹے تک موجود رہے اس دوران کوئی بھی ثبوت کرایم سین سے ختم کرنا ثابت نہیں ہوا'۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: مجھے اور میرے والدین کو مقدمے میں غلط پھنسایا گیا، ظاہر جعفر

اکرم قریشی نے اپنے دلائل میں کہا کہ پولیس کے اہلکاروں کے بیان کے مطابق ساڑھے نو بجے رات کو پولیس افسران سمیت وہاں متعدد اہلکار موجود تھے، اگر وہاں پولیس اہلکار موجود تھے تو انہوں نے ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی۔

اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے اکرم قریشی نے کہا کہ کسی بھی گواہ نے تھراپی ورکس کے ملازمین کے خلاف کوئی گواہی ہی نہیں دی، کسی سے رابطہ قائم ہونا کوئی جرم تو نہیں ہے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن الزامات ثابت نہیں کرسکی اور شک کا فائدہ تھراپی ورکس کے ملازمین کو جاتا ہے۔

تھراپی ورکس کے ملازمین کے وکیل نے کہا کہ میری استدعا ہے یہ پانچوں ملزمان بےگناہ ہیں اور ان کو بری کیا جائے۔

مرکزی ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پوری تفتیش میں یہ چیز چھپائی گئی کہ واقعے کی اطلاع کس نے دی، اگر گواہان کو بطور گواہ ہی عدالت میں پیش کیا جاتا تو ایک بہتر کیس ہوتا لیکن پولیس نے روایتی طور پر تفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے مزید لوگوں کو شامل کیا ورنہ کیس اتنا پھیلتا ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران والدین کی ہونے والی گفتگو کا ڈیٹا کبھی حاصل نہیں کیا گیا اور ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے نہ ہی واٹس ایپ کمپنی سے رابطہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلولر کمپنیوں سے ڈیٹا حاصل کیا جاسکتا تھا لیکن تفتیشی افسر نے کبھی ایسی کوشش ہی نہیں کی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم کے وکیل کا پولیس کی وضاحت مقدمے کا حصہ بنانے کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ ملزم کے والدین کا مقصد اگر جرم چھپانا ہوتا تو وہ پہلی پرواز کے ذریعے ہی کراچی سے اسلام آباد نہ پہنچتے اور پولیس کے سامنے پیش نہ ہوتے۔

وکیل اسد جمال نے کہا کہ پولیس میرے مؤکل پر عائد الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے اور میری مؤکلہ کو بری کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی ملزمان کے وکلا نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے۔

کیس کے مدعی کے وکیل شاہ خاور نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے پورے عمل میں ملزمان کی جانب سے کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ملزم ظاہرجعفر کا فوٹوگریمیٹک ٹیسٹ بھی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ساتھ میچ ہوا ہے، نورمقدم کے گھر میں داخلے کے بعد 38 گھنٹے بنتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نورمقدم اپنے ساتھ کوئی لگیج نہیں لائی تھیں، جب وہ گھر سے باہر جا رہی تھیں تو بہت گھبرائی ہوئی تھیں، ائیرپورٹ سے واپسی سے لےکر قتل تک نورمقدم کو اغوا کرکے رکھا گیا۔

وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ڈرگ پارٹی نہیں رکھی گئی اور نہ کوئی ڈرگ پارٹی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آرہی ہے، غیرت کے نام پر قتل کرنے والی کہانی بھی مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی جانب سے من گھڑت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کی شرٹ پر مقتولہ کا خون لگا ہوا تھا، پولیس

انہوں نے کہا کہ واقعے کی جگہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے اپنے بیان میں اعتراف قتل کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تھراپی ورکس نے بھی اعتراف کیا کہ جب انہیں جائے وقوع پر جانے کا کہا گیا تو وہاں قتل ہو چکا تھا، سی سی ٹی وی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقتولہ نورمقدم کو چوکیدار افتخار نے گھر سے باہر جانے نہیں دیا۔

مدعی کے وکیل نے بتایا کہ اگر چوکیدار افتخار مقتولہ نورمقدم کو باہر جانے دیتا تو قتل سے بچایا جاسکتاتھا، مقتولہ نورمقدم گرل کے اوپر گریں اور انہیں پیٹ میں چوٹ بھی لگی لیکن مقتولہ نے اپنی جان بچانے کے لیے زخمی ہونے کی پرواہ نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی ملزم ظاہرجعفر نے مقتولہ کو پکڑا اور قتل کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے والدین اتنے ہی ذمے دار ہوتے تو قتل ہونے کے بعد فلائٹ پکڑ کر نہ آتے، تو شریک ملزم کے بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے قتل کے عمل کو مان رہے ہیں۔

وکیل شاہ خاور کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی اور مدعی کے وکیل کل دوبارہ اپنے دلائل شروع کریں گے۔

مذہبی لباس کے بجائے اسکول میں یونیفارم کا حامی ہوں، بھارتی وزیرداخلہ

وزیراعظم 23 فروری کو روس کے دو روزہ دورے پر روانہ ہوں گے، دفترخارجہ

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جاتی ہے؟ تو اس کی وجہ جان لیں