دنیا

پیوٹن کو روس سے باہر فورس کے استعمال کا اختیار، فوج مشرقی یوکرین روانہ

امریکا نے روسی فوج کی نقل و حرکت کو یوکرین میں مداخلت سے تعبیر کیا اور جوابی اقدامات کا عندیہ دے دیا۔

روس کے اراکین اسمبلی نے صدر ولادیمیرپیوٹن کو ملک سے باہر فوج کے استعمال کے لیے فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جو یوکرین پر حملے کا باعث بن سکتا ہے جبکہ امریکا نے کہا ہے کہ مداخلت پہلے جاری ہے۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق روس کے ایوان بالا فیڈریشن کونسل نے روس سے باہر فوج کے استعمال کی اجازت دینے کے لیے ولادیمیر پیوٹن کو متفقہ طور پر اختیار دے دیا۔

مزید پڑھیں: پیوٹن نے یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں کو تسلیم کرلیا، مغربی ممالک برہم

رپورٹ کے مطابق اس کا اطلاق باغی علاقوں میں روسی فوج کی تعیناتی پر بھی ہوگا جہاں 8 سالہ تنازع کے دوران تقریباً 14 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔

قبل ازیں یورپ کے کئی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پیوٹن کی جانب سے تسلیم کیے جانے کے بعد روسی فوج مشرقی یوکرین میں باغیوں کے علاقوں کی طرف روانہ ہوگئی ہے۔

انہوں نے واضح نہیں کیا کہ فوج کتنی تعداد ہے۔

پیوٹن نے گزشتہ روز مذکورہ خطوں کو تسلیم کرنے کے بعد دونوںخطوں میں فوج کی تعیناتی کا حکم دے دیا۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق ٹینک اور فوجی آلات باغیوں کے زیر تسلط شہر ڈونیٹسک کی طرف بھیجے جارہے ہیں، جس کے بارے میں پیوٹن نے امن قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔

یوکرین اور اس کے مغربی اتحادیوں کا کہنا تھا کہ روسی فوج 2014 میں باغیوں کے ساتھ تنازع کے آغاز سے ہی مذکورہ علاقے میں لڑ رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس نے روسی فوج کی تعیناتی مداخلت قرار دے دی

وائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں مشرقی یوکرین میں روسی فوجیوں کی تعیناتی کو مداخلت قرار دیا تاہم امریکا کی جانب سے اس سے پہلے سرخ لکیر کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کیا گیا تھا۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں امریکا کی جانب سے ماسکو پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا روس کے 5 بینکوں اور 3 امیر ترین افراد پر پابندیاں لگانے کا اعلان

قومی سلامتی کے نائب مشیر جو فنر نے سی این این کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ‘ہم سمجھتے ہیں کہ مداخلت کا آغاز ہے، روس کی یوکرین میں تازہ مداخلت ہے، مداخلت اس وقت جاری ہے’۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے جرمن چانسلر اولاف اسکولز کے روس کے اقدامات کے جواب میں نورڈ اسٹریم ٹو گیس پائپ لائن روکنے کے فیصلے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں روس کے اقدامات کو مداخلت سے تعبیر کیا۔

جین ساکی نے کہا کہ امریکی صدر نے واضح کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین میں مداخلت کی ہم جرمنی کے ساتھ اقدام کرتے ہوئے نورڈ اسٹریم ٹو کی پیش روکنے کو یقینی بنائیں گے۔

خیال رہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین میں ماسکو کے حمایت یافتہ دو علیحدگی پسند علاقوں کو خود مختار تسلیم کر لیا تھا۔

پیوٹن نے سابق سویت ہمسائے کو ناکام ریاست اور مغرب کی ’کٹھ پتلی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بنیادی طور پر روس کا حصہ ہے۔

انہوں نے کیف حکام پر روسی زبان بولنے والوں کو ستانے اور یوکرین کے مشرق میں ڈونیسک اور لوگانسک کے دو علیحدگی پسند علاقوں میں ’فوجی حملے‘ کی تیاری کا الزام لگایا تھا۔

مزید پڑھیں: روس نے یوکرین میں حکومتی تبدیلی کے حوالے سے برطانوی دعویٰ مسترد کردیا

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ لوگ جنہوں نے کیف پر قبضہ کیا ہوا ہے ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد اپنا فوجی آپریشن بند کریں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بصورت دیگر ممکنہ خونریزی کی تمام تر ذمہ دارہاں یوکرین میں برسرِ اقتدار حکومت کے ضمیر پر ہوں گی‘۔

پیوٹن نے کہا تھا کہ'یہ ضروری ہے کہ طویل عرصے سے زیر التوا فیصلہ لیتے ہوئے جلد دونوں علاقوں کو تسلیم کیا جائے'۔

خطاب کے فوری بعد سرکاری ٹیلی ویژن پر ولادیمیر پیوٹن کو کریملن میں باغی رہنماؤں کے ساتھ کریملن میں معاہدہ پر دستخط کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

بعد ازاں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے روس کے 5 بینکوں اور 3 امیر ترین افراد پر پابندیاں لگانے کا اعلان کردیا تھا۔

بورس جانسن نے اسے پابندیوں کا پہلا مرحلہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان تینوں ارب پتی افراد کے اثاثے منجمد کیے جاتے ہیں اور ان کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی ہوگی، جبکہ برطانیہ کے تمام افراد اور اداروں کے ان سے کسی بھی قسم کے لین دین پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

برکینافاسو میں سونے کی کان کے قریب مارکیٹ میں دھماکے سے 63 افراد ہلاک

بھارتی اداکارہ نے مذہب کی خاطر شوبز سے کنارہ کشی اختیار کرلی

بھارت: کرناٹک میں بجرنگ دل کے کارکن کی ہلاکت پر فسادات، 20 افراد زخمی