پاکستان

ججز، سرکاری ملازمین کو پلاٹ الاٹ کرنے سے متعلق ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

آئین کے تحت ہائی کورٹ پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کر سکتی ہے نہ ہی اس معاملے پر ازخود نوٹس لے سکتی ہے، درخواست گزار
|

وفاقی دارالحکومت کے خصوصی سیکٹرز میں وفاقی ملازمین اور ججز کے لیے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سرکاری الاٹیز نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ازخودنوٹس لیتے ہوئے سرکاری افسران کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کی تھی، آئین کے تحت ہائیکورٹ کو ازخود لینے کا اختیار ہے نہ ہی یہ عدالت پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کر سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ زمینوں کے حصول کے نقطے پر پہلے ہی اصول وضع کر چکی ہے، فیصلہ دیتے وقت ہائی کورٹ نے عدالت عظمیٰ کے وضع کردہ اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا۔

یہ بھی پڑھیں: ججوں اور سرکاری ملازمین کو پلاٹس الاٹ کرنے کی اسکیم غیر آئینی قرار

درخواست گزار الاٹیز نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الاٹمنٹ بحال کرنے کی استدعا کی اور کہاکہ کیس سیکٹر ایف 14اور 15 کی الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا نہیں تھا۔

یاد رہے 3 فروری 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف جی ای ایچ اے کی پلاٹ اسکیم کو غیر آئینی اور عوامی مفاد کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کے اثاثے صرف عوام کے مفاد میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

اپنے تحریری فیصلے میں عدالت نے وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے سیکریٹری کو 2 ہفتوں کے اندر وفاقی کابینہ کے سامنے معاملہ رکھنے کی ہدایت کی تھی تا کہ وہ ایف جی ای ایچ اے یا سی ڈی اے آرڈیننس کے تحت مستقبل میں متعارف کروائی جانے والی اسکیم کے تناظر میں عدالتی حکم کے مطابق پالیسیز تشکیل دیں۔

عدالت نے کہا تھا کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف-12، جی-12، ایف-14 اور ایف-15 میں متعارف کرائی جانے والی اسکیم اور نظرِ ثانی شدہ پالیسی عوامی مفاد کی توہین اورعوام کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس لیے یہ غیر آئینی اور بغیر کسی اختیار کے ہیں۔

مزید پڑھیں: ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے خلاف فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی بنائی گی پالیسی کے مطابق ایف جی ای ایچ اے کی شروع کی گئی اسکیم کی آئینی اسکروٹنی کرائی جائے گی تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ اسکیم عوام کے مفاد میں ہے یا صرف طاقتور طبقے کے فائدے کے لیے ہے۔

عدالت نے کہا کہ وفاقی کابینہ سیکٹر ایف-12، جی-12، ایف-14 اور ایف-15 کی ترقی کے لیے ایسی پالیسی تشکیل دیں جو قومی خزانے کے خرچے پر چند اشرافیہ کے بجائے عوامی مفاد اور عوام کے فائدے میں ہوں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ایف جی ای ایچ اے کی متعارف کرائی گئی اسکیم عوام کے مفاد کے بجائے ان کے آئینی حق کی خلاف ورزی تھی اور وہ ادارے یا افراد جو اس سے مستفید ہونے والے تھے چاہے وفاقی ملازمین، ججز ہوں وہ پاکستان کے عوام کی خدمت کے لیے عہدے رکھتے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سرکاری عہدیدار اپنے مفاد کے لیے کوئی فائدہ تشکیل نہیں دے سکتے جو عوام کی فلاح و بہبود کی توہین ہو۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا سیکٹر 14، 15 میں پلاٹس کی قرعہ اندازی پر حکم امتناع

عدالت نے مزید کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اسکیمز اور نظرِ ثانی شدہ پالیسی عوامی مفاد کے برعکس اور آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اشرافیہ کی گرفت اور مفادات کے ٹکراؤ کے اوصاف واضح ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خزانے اور عوام کو بھاری نقصان پہنچانے کی قیمت پر چند طاقتور اشرافیہ کی افزودگی آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں ناقابل تصور ہے۔

رحمٰن ملک محتنی اور باصلاحیت شخص تھے، سیاستدانوں کا خراج عقیدت

بھارت مسلمان خاتون صحافی کو ہراساں کرنا بند کرے، ماہرین اقوام متحدہ

فارمولا دودھ بنانے والی کمپنیوں کی 'غیر اخلاقی مارکیٹنگ حکمت عملیاں بے نقاب'