دنیا

روسی فوجی یوکرین کے دوسرے بڑے شہر 'خارکیف' میں داخل

یوکرین کے میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں روسی گاڑیوں کو خارکیف کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

روس کی فوجیں یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں داخل ہو گئی ہیں اور شہر کی سڑکوں پر لڑائی جاری ہے۔

خبر رساں ایجنسیوں 'اے پی' اور 'اے ایف پی' کے مطابق خارکیف کی علاقائی انتظامیہ کے سربراہ اولیح سینہوبوف نے کہا کہ یوکرین کی افواج شہر میں روسی فوجیوں سے لڑ رہی ہیں اور شہریوں سے کہا کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

جمعرات کو روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے آغاز کے فوراً بعد روسی فوجی خارکیف کے قریب پہنچے جو روس کی سرحد سے تقریباً 20 کلومیٹر (12.4 میل) جنوب میں واقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں:روس کے یوکرین پر حملے کے بعد 500 پاکستانی انخلا کیلئے رواں دواں

لیکن اتوار تک وہ شہر میں داخل ہونے کی کوشش کیے بغیر مضافاتی علاقوں میں موجود رہے جبکہ دیگر فورسز نے یوکرین میں اپنی جارحیت کو مزید بڑھا دیا لیکن یوکرین کے فائٹرز نے بھرپور عزم کے ساتھ مزاحمت کی۔

یوکرین کے میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں روسی گاڑیوں کو خارکیف کی جانب پیش قدمی کرتے دیکھا جاسکتا ہے اور سڑک پر ایک گاڑی جلتی دکھائی دے رہی ہے۔

دریں اثنا روس نے آج یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کے فوجیوں نے جنوبی یوکرین کے شہر کھیرسن اور جنوب مشرق میں برڈیانسک شہر کا مکمل طور پر محاصرہ کر لیا ہے۔

مزید پڑھیں: یوکرین سے مزید 23 پاکستانی طلبہ کی پولینڈ منتقلی کی تیاری مکمل

وزارت دفاع کے ترجمان ایگور کوناشینکوف نے روسی خبر رساں ایجنسیوں کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران روسی مسلح افواج نے کھیرسن اور برڈیانسک شہر کو مکمل طور پر بلاک کر دیا ہے۔

روس نے یوکرین میں ہوائی اڈوں اور ایندھن کی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے حملوں کی ایک نئی لہر کا آغاز کیا جوکہ یوکرین پر روس کے حملے کا اگلا مرحلہ دکھائی دیتا ہے۔

ادھر امریکا اور یورپی یونین نے یوکرین کو بڑی تعداد میں ہتھیاروں اور گولہ بارود فراہم کر کے ان حملوں کا جواب دیا اور روس کو مزید تنہائی کا شکار کرنے کے لیے سخت پابندیاں لگا دیں۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرینی صدر کا بھارتی وزیراعظم سے سلامتی کونسل میں تعاون کا مطالبہ

دارالحکومت کیف کے جنوب میں اتوار کے اوائل میں دھماکوں سے آسمان روشن ہو گیا تھا اور روسی افواج کے بڑے پیمانے پر متوقع حملے کے خوف سے لوگ گھروں، زیر زمین گیراج اور سب وے اسٹیشنز میں چھپنے پٌر مجبور ہو گئے۔

یوکرین صدر ولادمیر زیلنسکی کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایک اور دھماکا سویلین زولیانی ہوائی اڈے پر ہوا۔

مزید پڑھیں: یوکرین مذاکرات سے انکار کرکے تنازع کوطول دے رہا ہے، روس

ولادمیر زیلنسکی کے دفتر نے یہ بھی بتایا کہ روسی افواج نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیف میں ایک گیس پائپ لائن کو دھماکے سے اڑا دیا۔

اس حوالے سے حکومت نے لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ اپنی کھڑکیوں کو نم کپڑے یا جالی دار پٹی سے ڈھانپ کر خود کو دھوئیں سے محفوظ رکھیں۔

یوکرین کے صدر نے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے جب تک ضرورت ہو گی، ہم لڑیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: روس کے ساتھ غیرجانبدار حیثیت پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں، یوکرین

خوفزدہ مرد، عورتوں اور بچوں نے گھر کے اندر اور زیر زمین محفوظ رہنے کی کوشش کی اور حکومت نے لوگوں کو سڑکوں سے دور رکھنے کے لیے 39 گھنٹے تک کرفیو برقرار رکھا۔

ڈیڑھ لاکھ سے زائد یوکرینی باشندے پولینڈ، مالڈووا اور دیگر پڑوسی ممالک کی جانب روانہ ہو چکے ہیں، اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر لڑائی بڑھی تو یہ تعداد 40 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے اپنے حتمی منصوبے ظاہر نہیں کیے ہیں لیکن مغربی حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ یوکرین کی حکومت کا تختہ الٹنے اور اس کی جگہ اپنی حکومت لانے کے لیے پرعزم ہیں۔

مزید پڑھیں: روسی حملے میں 198 افراد ہلاک، 1000 سے زائد زخمی ہوچکے، یوکرینی وزیر صحت

مغربی میڈیا اور حکام کے دعوؤں کے مطابق وہ یورپ کے نقشے کو از سر نو مرتب کریں گے اور روس کے سرد جنگ کے دور کے اثر و رسوخ کو بحال کریں گے۔

شہر کے مضافات میں جاری لڑائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ چھوٹے روسی یونٹس بڑی افواج کے لیے راستہ صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کیف کے اندر روسی فوجیوں کے چھوٹے گروپوں کی موجودگی کی اطلاع ملی ہے لیکن برطانیہ اور امریکا نے کہا ہے کہ ہفتے کی سہ پہر تک افواج کا بڑا حصہ شہر کے مرکز سے 19 میل (30 کلومیٹر) کے فاصلے پر تھا۔

روس کا دعویٰ ہے کہ اس کے شمال، مشرق اور جنوب سے یوکرین پر حملے کا مقصد صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنانا ہے لیکن ان کے دعوے کے برعکس پل، اسکول اور رہائشی محلے متاثر بھی ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: روسی افواج کی یوکرین کے دارالحکومت کی جانب پیش قدمی

یوکرین کے وزیر صحت نے کل اطلاع دی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی سب سے بڑی اس زمینی جنگ کے دوران تین بچوں سمیت 198 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

یہ واضح نہیں کہ ان اعداد و شمار میں فوجی اور شہری دونوں ہلاکتیں شامل ہیں یا نہیں۔

امریکا میں یوکرین کی سفیر اوکسانا مارکارووا نے کہا کہ کیف میں فوج روسی تخریب کار گروپوں سے لڑ رہی ہے۔

یوکرین کا کہنا ہے کہ 200 کے قریب روسی فوجی پکڑے گئے اور ہزاروں مارے جاچکے ہیں۔

'پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کیلئے فی ورکر 30، 30 ہزار روپے کا پیکج بانٹا گیا ہے'

کورونا وائرس کسی لیبارٹری سے نہیں بلکہ ووہان مارکیٹ سے پھیلا، تحقیق

یوکرین بحران کا جلد از جلد حل ناگزیر کیوں ہے؟