دنیا

روسی خاتون صحافی ٹی وی نشریات کے دوران جنگ مخالف بینر لے کر آگئیں

روسی حکومت کے زیر کنٹرول ٹی وی چینل پر خاتون صحافی جنگ مخالف بینر لے کر نیوز کاسٹر کے پیچھے کھڑی ہوگئیں۔

روسی حکومت کے زیر کنٹرول ایک نیوز چینل پر براہ راست خبریں نشر ہونے والے دوران ایک خاتون صحافی جنگ مخالف بینر لے کر اسکرین کے سامنے آگئیں، جن کی ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں وائرل ہوگئی۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق روسی ٹی وی ’چینل ون‘ پر شام کی خبریں پڑھنے کے دوران چینل کی خاتون ایڈیٹر مرینا اوفسیانیکوفا جنگ مخالف بینر لے کر آگئیں اور ساتھ ہی روسی زبان میں جنگ مخالف نعرے بھی لگائے۔

نیوز چینل کی وائرل ہونے والی مذکورہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون ایڈیٹر مرینا اوفسیانیکوفا اچانک نیوز کاسٹر کے پیچھے بینر لے کر کھڑی ہوجاتی ہیں تاکہ دنیا بھر کے لوگ ان کے احتجاج کو بھی دیکھ سکیں۔

خاتون ایڈیٹر کی جانب سے تھامے گئے بینر پر انگریزی میں ’جنگ نہیں‘ کا جملہ لکھا ہوا تھا جب کہ روسی زبان میں بھی جنگ مخالف نعرے درج تھے۔

خاتون کے بینر پر روسی زبان میں ’جنگ ختم کریں، پروپیگنڈہ پر یقین مت کریں، آپ سے جھوٹ بولا جا رہا ہے‘۔

وائرل ہونے والی ویڈیو میں پروگرام کی نشریات کے دوراں احتجاج کرنے والی خاتون کا آواز سنا جا سکتا ہے جس میں وہ ’ جنگ بند کریں اور جنگ نہیں چاہیے‘ جیسے نعرے لگاتی سنائی دیتی ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ احتجاج کرنے والی خاتون کی جانب سے نعرے لگائے جانے کے وقت نیوز کاسٹر بھی اپنی آواز کو تیز کردیتی ہیں تاکہ احجاج کرنے والی خاتون کی آواز سمجھ نہ آسکے۔

اسی حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بعد ازاں نشریات کے دوران جنگ مخالف بینر لے کر آنے اور نعرے لگانے والی خاتون صحافی کو گرفتار کرلیا گیا، جن پر اب فوج کی بدنامی کرنے جیسے قوانین کے تحت قانونی کارروائی کیے جانے کا امکان ہے۔

بی بی سی کے مطابق ٹی وی چینل کی نشریات کے دوراں احتجاج کرنے سے قبل مذکورہ خاتون صحافی نے ایک وڈیو پیغام جاری کیا تھا جس میں انہوں نے یوکرین میں جاری جنگی حالات کو ’جرم‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ان کے لیے ایک شرم کی بات ہے کہ وہ کریملن کے پروپیگنڈہ کا حصہ بن کر کام رہی ہیں۔

انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا تھا کہ انہیں شرم آتی ہے کہ انہوں نے خود کو ٹیلی وژن اسکرین سے جھوٹ بولنے کی اجازت دی۔

خاتون صحافی نے ویڈیو پیغام میں روسی شہریوں کو جنگ کے خلاف احتجاج کرنے کی دعوت دی اور کہا کہ صرف وہ ہی اس ’پاگل پن‘ کو روک سکتے ہیں۔

خاتون کی شناخت سامنے آنے کے بعد انہیں فیس بک پیج سے روسی اور انگریزی زبان میں لاتعداد کمینٹس وصول ہوئے ہیں جس میں لوگ ان کے عمل کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ عام طور پر روس میں میڈیا چینلز حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور بڑے چینلز پر آزادانہ تبصرے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

علاوہ ازیں روس کے یوکرین پر حملہ کے بعد نئے قوانین متعارف ہونے کے بعد ٹٰی وی چینلز کو مزید پابند کیا گیا ہے۔

رواں ماہ نافذ کیے گئے نئے قوانین میں کہا گیا ہے کہ روسی فوج کے عمل کو قبضہ کہنا اور اس متعلق غلط خبریں نشر کرنا غیر قانونی عمل ہوگا۔

روسی میڈیا جنگ کو ایک ’اہم فوجی آپریشن‘ قرار دے رہا ہے جبکہ یوکرین کو حملہ آور کے طور پر دکھا رہا ہے۔

روسی حکام کی جانب سے نافذ کیے گئے نئے قوانین کے بعد آزاد ٹی وی چینلز جن میں ’ایکو آف ماسکو‘ نامی ریڈیو چینل اور ’ٹی وی رین‘ نامی ایک آنلائن ٹی وی چینل شامل ہیں، انہوں نے بھی جنگ سے متعلق خبریں نشر کرنا بند کردی ہیں۔

تاہم ’نووایا گزیٹا‘ کے نام سے شائع ہونے والا ایک اخبار نئے قوانین کی خلاف ورزی کیے بغیر جنگ سے متعلق خبریں شائع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اسی طرح روسی حکومت نے غیر ملکی میڈیا ہاؤسز جن میں بی بی سی جیسے ادارے بھی شامل ہیں، انہیں بھی معلومات تک محدود رسائی دے رکھی ہے، علاوہ ازیں متعدد سوشل میڈیا سائٹس اور ایپلی کیشنز کو بھی بند کردیا گیا ہے۔

روس نے انسٹاگرام پر پابندی عائد کردی

’پُر تشدد‘ پوسٹس کی اجازت روسی جنگ کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے دی، فیس بک

فیس بک کا روسی صدر کے خلاف تشدد پر زور دینے والی پوسٹس کی اجازت دینے کا فیصلہ