پاکستان

تحریک انصاف کے منحرف اراکین اسمبلی کو فائنل شوکاز نوٹس جاری

وزیراعظم عمران خان کی ہدایات پر جاری نوٹس میں ان منحرف اراکین کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کی ہدایات کے بعد حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے منحرف اراکین اسمبلی کو حتمی شوکاز نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں جس میں ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے سینٹرل میڈیا ڈائریکٹوریٹ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 63-اے کے تحت منحرف اراکین اسمبلی کو جمعہ کی دوپہر 12 بجے تک اپنے مؤقف کی وضاحت کرنے کے لیے نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: عمران خان کو ہٹانے کی ‘غیرملکی سازش’میں میڈیا کے چند سینئر لوگ بھی شامل ہیں، فواد چوہدری

وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان اور پارٹی کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل عامر محمود کیانی کے درمیان ہونے والی ملاقات میں حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا اور نوٹسز کے مسودے کو حتمی شکل دی گئی۔

ان کے بیان میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63-اے ارکان کی فلور کراسنگ پر سختی سے پابندی عائد کرتا ہے اور آئین کے تحت پارٹی سربراہ کی طرف سے وضع کردہ پالیسی سے انحراف انہیں اپنی نشستوں سے محروم کر دیتا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ڈیڈ لائن تک پارٹی کو مطمئن کرنے میں ناکام رہنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور پارٹی پالیسی سے کھلے عام انحراف کرنے والوں کے خلاف باقاعدہ ریفرنس قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھیج دیا جائے گا، اس میں کہا گیا ہے کہ پارٹی منحرف اراکین اسمبلی کی نشستوں کو خالی قرار دینے کے لیے اسپیکر سے رجوع کرے گی۔

دریں اثنا پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے صحافیوں کے ایک گروپ کو بتایا کہ اسپیکر کو آئین کے تحت کسی رکن کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں ہے اور وہ پارٹی سربراہ کی جانب سے ریفرنس موصول ہونے کے بعد ڈاکیا(پوسٹ مین) کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور ایسا بھی وہ ووٹنگ کے عمل کے بعد ہی کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت کیخلاف ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی سے معاہدہ، دیرینہ مطالبات منظور

انہوں نے کہا کہ آئین یہ بات پوری طرح واضح کرتا ہے کہ صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہی کسی کو نااہل قرار دینے کا اختیار ہے، اس صورتحال میں اسپیکر کا واحد کردار یہ ہے کہ وہ ایک مبینہ فلور کراسر کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ریفرنس بھیجے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی رکن اسمبلی کو بعد میں منحرف قرار دیا جاتا ہے تو اس کی جانب سے ڈالا گیا ووٹ درست ہوگا کیونکہ جب اس نے ایسا کیا تھا تو اس نے فلور کراس کرنے کا عزم نہیں کیا تھا۔

تاہم، عرفان صدیقی نے کہا کہ ایسی صورت حال پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ حکومت نے اکثریت کھو دی ہے اور اگر منحرف اراکین ان کے خلاف ووٹ نہ ڈالیں تب بھی حکومت کو جانا پڑے گا۔

آئین کا آرٹیکل 63-اے جو انحراف کی بنیاد پر نااہلی سے متعلق ہے کو کچھ اس طرح پڑھا جائے گا۔

(1) اگر کسی پارلیمانی پارٹی کا رکن کسی ایوان میں کسی ایک سیاسی جماعت پر مشتمل ہو۔

مزید پڑھیں: پنجاب کی سیاسی گرما گرمی میں ترین گروپ نے مرکزی حیثیت حاصل کرلی

(الف) اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت سے استعفیٰ دے یا کسی دوسری پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو جائے؛ یا

(ب) پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے برخلاف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے، ووٹ دیتا ہے یا ایوان میں ووٹنگ سے گریز کرتا ہے، جس کا تعلق

(i) وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب؛ یا

(ii) اعتماد کے ووٹ یا عدم اعتماد کے ووٹ؛ یا

(iii) منی بل یا آئینی (ترمیمی) بل سے ہو؛

تو پارٹی کا سربراہ تحریری طور پر اعلان کر سکے گا کہ وہ اس سیاسی جماعت سے منحرف ہو گیا ہے اور پارٹی کا سربراہ اعلان کی ایک نقل افسر صدارت کنندہ اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج سکے گا اور اس طرح اس کی ایک نقل متعلقہ رکن کو بھیجے گا:

مگر شرط یہ ہے کہ اعلان کرنے سے پہلے پارٹی کا سربراہ مذکورہ رکن کو اس بارے میں اظہار وجوہ کا موقع فراہم کرے گا کہ کیوں نہ اس کے خلاف مذکورہ اعلان کردیا جائے۔

(2) کسی ایوان کا کوئی رکن کسی پارلیمانی جماعت کا رکن ہو گا اگر وہ ایسی سیاسی جماعت کے جو ایوان میں پارلیمانی پارٹی تشکیل کرتی ہو، امیدوار یا نامزد کے طور پر منتخب ہو کر یا کسی سیاسی جماعت کے امیدوار یا نامزد کی حیثیتر کے علاوہ بصورت دیگر منتخب ہو کرت مذکورہ انتکاب کے بعد تھریری اعلان کے ذریعے مذکورہ پارلیمانی پارٹی کا رکن بن گیا ہو۔

یہ بھی پڑھیں: عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز اسمبلی نہ آئیں، وزیراعظم کا پارٹی اراکین اسمبلی کو خط

(3) شق (1) کے تحت اعلان کی وصولی پر ایوان کا افسر صدارت کنندہ دو دن کے اندو وہ اعلان چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دے گا اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو جائے تو یہ متصور کای جائے گا کہ اس نے ارسال کردیا ہے، جو اعلان کو الیکشن کمیشن کے سامنے اس کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے وصولی اس کی وصولی کے 30دن کے اندر اعلان کی توثیق کرتے ہوئے یا اس کے برعکس اس کے فیصلے کے لیے رکھے گا۔

(4) جبکہ الیکشن کمیشن اعلان کی توثیق کردے تو شق(1) میں محولہ رکن ایوان کا رکن نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔

(5) الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ناراض کوئی فریق 30دن کے اندر عدالت عظمیٰ میں اپیل داخل کر سکے گا جو اپیل داخل کرنے کی تاریخ سے 90دنوں کے اندر اس معاملے کا فیصلہ کرے گی۔

سیف کو کہا ہے 60 سال کی عمر میں بچہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی، کرینہ کپور

’پاکستان میں نہ کسی کا آنا آسان ہے نہ جانا، پورا بندوبست کیا جاتا ہے‘

وہ عام غلطیاں جو آپ کی گاڑی کو جلد خراب کردیں