پاکستان

فوج، عدلیہ کیخلاف سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹ کرنے پر ریٹائرڈ فوجی کی ضمانت مسترد

ملزم نے سوشل میڈیا پر پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بادی النظر میں جان بوجھ کر ریمارکس شیئر کیے، عدالت کا فیصلہ

پشاور کی مقامی عدالت نے آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف سوشل میڈیا پر توہین آمیز پوسٹ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے گرفتار کیے گئے ریٹائرڈ فوجی افسر کی درخواست ضمانت مسترد کردی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ شیر حسن خان نے مشاہدہ کیا کہ ضلع کرک کے رہائشی درخواست گزار محمد رضا ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں اور پاکستان کی خدمت کرتے رہے ہیں، اس لیے اس نے سوشل میڈیا پر پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بادی النظر میں جان بوجھ کر ریمارکس شیئر کیے۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کا الزام، ملزم کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

عدالت نے فیصلہ دیا کہ دستیاب ریکارڈ کے مطابق درخواست گزار بادی النظر میں جرم سے جڑا ہوا ہے اور اس لیے وہ ضمانت کی رعایت کا حقدار نہیں ہے۔

درخواست گزار پر 11 اپریل کو ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ کے تھانے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 500، 501 اور 505 کے تحت درج ایف آئی آر میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ریکارڈ کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آئے گی کہ درخواست گزار نے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر چیف آف آرمی اسٹاف اور پاک فوج کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور دیگر سوشل میڈیا فورمز پر توہین آمیز ریمارکس شیئر کیے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ درخواست گزار کے ٹوئٹر اکاؤنٹس کے اسنیپ شاٹس کیس فائل میں دستیاب ہیں۔

درخواست گزار نے سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کے ججوں کی ایک گروپ تصویر شیئر کی تھی جس میں ان کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 'تنقیدی ٹوئٹس' کرنے پر گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

ایف آئی اے کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر (لیگل) نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کو مقدمے میں براہ راست نامزد کیا گیا تھا اور ریکارڈ پر موجود شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے سیکیورٹی فورسز اور عدلیہ کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔

ضمانت منظور

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قبائلی ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں دہشت گردوں اور عوام دشمن عناصر کو پناہ دینے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی فورسز پر گولیاں چلانے کے الزام میں گرفتار شخص کی ضمانت منظور کر لی۔

استغاثہ نے دعویٰ کیا کہ ایسی اطلاعات تھیں کہ مشتبہ فہد خان نے اپنی رہائش گاہ میں دہشت گردوں اور سماج دشمن عناصر کو پناہ دی تھی جس نے فرنٹیئر کور اور مقامی پولیس کے اہلکاروں کو گرفتار کرنے کے لیے اس جگہ پر چھاپہ مارنے پر مجبور کیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ مشتبہ شخص نے چھاپہ مار ٹیم کو حراست میں لینے سے قبل فائرنگ کر دی تھی۔

درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ فرہاد آفریدی پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو مقدمے میں جھوٹا پھنسایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے کی ریاستی اداروں کے خلاف آن لائن مہم چلانے والوں کےخلاف کارروائی، 8 افراد گرفتار

ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے وقت درخواست گزار گھر میں موجود نہیں تھے۔

وکیل نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے برعکس ان کے مؤکل کی رہائش گاہ پر کوئی دہشت گرد یا سماج دشمن عناصر موجود نہیں تھے۔