پاکستان

دادو میں ایک اور گاؤں آگ کی نذر

آگ لگنے سے کم از کم 20 کچے مکانات اور مویشیوں اور اناج سمیت قیمتی املاک خاکستر ہوگئیں، رپورٹ

سندھ کے ضلع دادو کے ایک گاؤں نورپور میں آگ لگنے سے کم از کم 20 کچے مکانات اور مویشیوں اور اناج سمیت قیمتی املاک خاکستر ہوگئیں ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نور پور کے دورے پر آئے دادو کے ڈپٹی کمشنر سید مرتضیٰ شاہ نے بتایا کہ آگ دوپہر 1:40 بجے کے قریب ایک کچے مکان پر ہائی وولٹیج بجلی کی تار گرنے کے بعد شروع ہوئی اور تیز ہواؤں کے باعث قریبی گھروں میں پھیل گئی، انہوں نے مزید کہا کہ امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔

تاہم مقامی لوگوں کو اپنی مدد آپ آگ بجھانی پڑی کیونکہ میہڑ کی تحصیل انتظامیہ آگ پر قابو پانے کے لیے ایک بھی فائر ٹرک بھیجنے میں ناکام رہی۔

ایک مقامی رہائشی وزیر قمبرانی نے بتایا کہ اس نے آگ لگتے ہی حکام کو فون کیا لیکن کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہیں آیا اور کم از کم 3 گھنٹے تک آگ لگی رہی۔

یہ بھی پڑھیں: دادو: دو دیہات میں آگ لگنے سے 6 بچوں سمیت 9 افراد جاں بحق، وزیراعظم کا اظہار افسوس

مولا بخش سیال نے مقامی حکام کی بے حسی کی شکایت کرتے ہوئے کہا 'ہم کھلے آسمان تلے بیٹھے حکام کے انتظار میں تھے کہ وہ ہمیں بچائیں لیکن کوئی نہیں پہنچا'۔

آگ لگنے سے مکانات، مویشی اور گندم سمیت دیگر قیمتی سامان جل گیا، ایک اور رہائشی ذاکر قمبرانی نے بتایا کہ آگ سے کُل 5 ہزار من گندم جل کر تباہ ہو گئی، انہوں نے مزید کہا کہ کپڑے، زیورات اور دیگر قیمتی سامان بھی راکھ کا ڈھیر بن گیا۔

امداد قمبرانی نے بتایا کہ آگ میں کم از کم 20 بکریاں، گائے اور بھیڑیں جل کر خاکستر ہو گئیں، اسماعیل سیال اپنے خاندان کو آگ سے بچانے کے لیے بھاگتے ہوئے 5 بکریاں اور گندم اور دھان کا ایک سال تک کا ذخیرہ کھو بیٹھے، انہوں نے اپنی فیملی کے لیے عید کے کپڑوں پر 20 ہزار روپے خرچ کیے تھے لیکن آگ نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

بچل قمبرانی کی اہلیہ نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتوں افراد کو بچانے میں کامیاب رہیں لیکن ان کی 5 بکریاں اور دیگر جائیداد نہیں بچ پائی۔

دادو میں پیر کے بعد سے آگ لگنے کا یہ چھٹا واقعہ ہے، ان آتشزدگیوں میں اب تک کل 136 مکانات جل کر خاکستر ہو چکے ہیں، سیتا روڈ ٹاؤن کے قریب گاؤں جالب رند میں 50 مکانات، خیرپور ناتھن شاہ کے قریب گاؤں محمد کھوسو میں 11 مکانات، میہڑ کے قریب گاؤں صالح سولنگی میں 5 گھر اور میہڑ تعلقہ کے گاؤں فیض محمد کھوسو دریانی چانڈیو میں 70 گھر تباہ ہو گئے۔

ایک اور بچہ جاں بحق

دریں اثنا فیض محمد دریانی چانڈیو گاؤں میں آتشزدگی سے جاں بحق بچوں کی تعداد 10 ہو گئی، آگ سے زخمی ایک اور بچہ کراچی کے جناح اسپتال میں دم توڑ گیا۔

حسن ولد بہار چانڈیو کو تشویشناک حالت کے باعث کراچی منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا، اب تک ایک بچے سمیت کم از کم 4 افراد کی حالت تشویشناک ہے۔

دیہاتیوں نے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے اپیل کی کہ وہ جلد از جلد اپنے گھروں کی تعمیر نو شروع کروائیں۔

آتشزدگی کے باعث اپنے 4 بچے کھونے والے امام الدین چانڈیو نے کہا کہ شدید گرمی میں خیموں میں رہنا مشکل ہے۔

ناراض دیہاتیوں نے مہر فرید آباد لنک روڈ پر الگ الگ مقامات پر متعدد احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔

ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ حکومت اس معاملے میں ذمہ داروں کا تعین کرے گی جبکہ انہیں ان کے گھروں اور گاؤں کی بحالی میں حکومت کے تعاون کا یقین دلایا۔

آئی ایم ایف 'قرض پروگرام' میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ کرنے پر رضامند

بلوچستان کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟

لندن: نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنان کا احتجاج