نقطہ نظر

کہانی: خوابوں میں بندوق نہیں چلائی جاسکتی

بوڑھے کا باپ زندہ ہوتا تو اسےیقین نہ آتا کہ جس دریا کو پار کرنےمیں پورا ایک پہر لگتا تھا اسے محض چند قدم چل کر پار کیا جاسکتا ہے۔

کہانی نمبر ایک: ایک بوند پانی


وہ دریا کنارے پیدا ہوا تھا، پانیوں سے کھیلتے اس کا بچپن گزرا تھا۔ لیکن اب پورے 80 سال بعد وہ دریا کی خشک ریت پر پانی کی ایک بوند کے لیے ترس رہا تھا۔ دریا سوکھ کر ایک نالا بن چکا تھا جہاں قطار در قطار لوگ بالٹیاں لیے بیٹھے تھے۔

اس کی ہڈیوں میں اتنا دم خم نہیں رہا تھا کہ وہ اٹھ کر بہتے نالے تک پہنچ جاتا۔ لوگوں کی بھیڑ سے دُور، ایک طرف گرم ریت پر پڑا اپنا بچپن یاد کر رہا تھا۔ محض 80 سالوں میں دریا سوکھ گیا تھا۔ اسی دریا کے کنارے بیٹھے اس کا باپ ہمیشہ کہتا تھا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو دریا کی چوڑائی اتنی زیادہ تھی کہ تیرکر پار کرنے والے سورج نکلتے دریا میں اترتے تو دوسرے کنارے پہنچنے تک سورج سوا نیزے پر ہوتا۔ بالکل ایسے جیسے ابھی اس کے سر پر چمک رہا تھا۔

‘شاید اب سورج زیادہ نزدیک آگیا ہے یا زمین سورج کے قریب پہنچ گئی ہے‘، اس نے سوچا مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ پایا کہ پیاس کی شدت سے اس کی زبان سوکھے پتے کی مانند ہوچکی تھی۔ ایک نوجوان پانی کی بالٹی لیے اس کے قریب سے گزرا تو رُک گیا۔

بوڑھے کی آنکھوں میں التجا تھی، زبان لفظوں سے عاری تھی، اس نے آنکھوں سے بالٹی کی طرف اس طرح دیکھا کہ نوجوان اس کا مدعا سمجھ گیا۔

‘پانی چاہیے؟’

اس نے پلکیں جھپکائیں۔

نوجوان نے دونوں ہاتھوں کا چلو بنا کر بالٹی سے پانی لیا اور بوڑھے کے منہ میں ٹپکا کر جلدی سے یوں چل دیا جیسے وہ ایک لمحہ بھی ٹھہرا تو اسے چند پانی کے قطروں کا مزید نقصان اٹھانا پڑجائے گا اور خشک سالی کے ان دنوں میں پانی سے قیمتی بھلا کیا تھا؟

بوڑھا اب اٹھ کھڑا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ کے قریب پہنچ گیا۔ جہاں شور تھا۔

بوڑھے کا باپ زندہ ہوتا تو اسے یقین نہ آتا کہ جس دریا کو پار کرنے میں پورا ایک پہر لگتا تھا اسے محض چند قدم چل کر پار کیا جاسکتا ہے۔

‘تھوڑی سی جگہ دینا’، بوڑھے نے سامنے موجود ایک آدمی سے کہا۔

‘بوڑھی ہڈیوں کو راستہ دو۔ پِس جاؤ گے بزرگو۔ اور برتن کہاں ہے؟’

‘مجھے جگہ چاہیے۔‘

‘جگہ خود بنانی پڑتی ہے، کنارے تک پہنچنا اتنا آسان نہیں، ہر جگہ ایک نفس بیٹھا ہے۔‘

پورا شہر کنارے پر موجود تھا۔ اب لوگ گھروں میں نہیں رہتے بس کنارے پر پانی جمع کرتے رہتے ہیں۔

تھوڑی سی تگ و دو کے بعد بوڑھا آخر پانی کے کنارے پہنچ گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

‘بھر لیا ہے تو پیچھے ہوجاؤ۔‘

‘بزرگو۔ پیچھے آجاؤ۔ دھکا لگ جائے گا۔‘

بوڑھے کے کان سماعت سے محروم ہوچکے تھے، اس نے اپنے بچپن کو یاد کیا۔ اپنے ماں باپ کو۔ اس وقت کے دریا کے پانیوں کو۔ آنکھیں بند کیں اور چھلانگ لگادی۔ وہ ڈوبنا چاہتا تھا مگر بوند بھر پانی ڈوبنے کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: کہانی: 'اشفاق تمہیں پرسوں قتل کردیا جائے گا'


کہانی نمبر دو: سستی زندگی


‘معلوم نہیں وہ کون سی جگہ تھی۔ پانی تھا، ریت تھی یا کچھ بھی نہیں تھا۔ میں وہاں تھا مگر نہیں تھا۔ تھا، ہوں نہیں۔ کیا مطلب۔ یہ سب وقتی بکواس ہے جو چل رہی ہے۔ مہنگائی مہنگائی۔ پچھلی حکومت میں سب چیزیں سستی تھیں۔ زندگی بھی۔ ابھی چیزیں مہنگی ہیں۔ زندگی پھر بھی سستی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ آخر آدمی کتنا سوچے؟‘

‘بھئی صاحب بات سنیے۔ یہ زندگی یہاں کب مہنگی ہوگی؟’

‘ارے بھئی کچھ سستا بھی رہنے دو، اور یہ کس طرف جا رہے ہو؟’

‘یہ بس پارک تک۔‘

‘ارے پاگل ہوگئے ہو۔ کوئی مار وار دے گا۔ ٹائم تو دیکھو۔‘

‘وجہ؟’

‘وہی سستی زندگی۔‘


کہانی نمبر تین: لاکٹ


ہمارے نلکے میں پانی نہیں آرہا اور کئی دن سے ہم کافی دُور سے پانی بھر کر لارہے ہیں۔ زیرِ زمین پانی کی سطح گرتی جا رہی ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ مستقبل میں لوگ سمندر کے پانی کو میٹھا کرکے پئیں گے، تب تک معلوم نہیں کون زندہ رہے گا اور کون نہیں۔

ابھی تو دن رات پیاس ہی رہتی ہے۔ میں سوچتا ہوں ہمیں اس نلکے کو اکھاڑ کر پھینک دینا چاہیے۔ یاد آیا کہ ایک بار گاؤں کے بینک سے کوئی ATM اٹھا کر لے گیا۔

پولیس کی گاڑیاں سارا دن سائرن بجاتی رہیں مگر وہ بیدے کو نہ پکڑ سکیں۔ یہ کام اسی کا تھا کہ چوری کا ہنر اسے وراثت میں ملا تھا۔ اس کا باپ پولیس مقابلے میں مرا تھا اور جب پولیس نے اس کی جیب کی تلاشی لی تو اس وقت بھی اس کی جیب میں ملک صاحب کی بیوی کا سونے کا لاکٹ تھا۔ تاہم ملک صاحب نے کہا کہ یہ ان کی بیوی کا نہیں کسی اور کا ہوگا کہ ان کے ہاں تو کبھی چوری ہوئی ہی نہیں اور بیوی کو چند دن بعد طلاق دے دی۔

بہرحال بیدا مشین اکھاڑ کر گھر لے گیا تھا۔

بندہ پوچھے اس میں سے پیسے کیسے نکالو گے۔ 3 دن وہ لگاتار ہتھوڑے برساتا رہا، نکلا سوا اور مٹی، بالکل ہمارے نلکے کی طرح۔ ہم بھی اسے اکھاڑ کر پھینک دیں گے اور یہ کوئی غیر قانونی کام تو نہیں کہ بیدے نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا۔

جب مشین سے کچھ نہ نکلا تو وہ مشین پھینکنے باہر گیا جس کی چنداں ضرورت نہیں تھی مگر اس نے ایسا کیا اور راستے میں پولیس نے اسے دھر لیا۔ دونوں طرف سے گولیاں چلیں، اور پھر اس کا انجام بھی باپ جیسا ہی ہوا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کی جیب سے بھی وہی لاکٹ نکلا۔

معلوم نہیں یہ لاکٹ کس کا ہے۔

مزید پڑھیے: کہانی: ’آدمی اتنا مہنگا تھوڑی ہوتا ہے‘


کہانی نمبر چار: مستقبل کے رہائشی ڈبے


انہوں نے چھوٹے چھوٹے ڈبے بنائے اور ان میں گھر کرلیا۔ وہ کیڑے مکوڑے نہیں انسان ہیں، تاہم جگہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ایک ڈبہ کرائے پر لیں اور اس میں رہنا شروع کردیں۔ کھلے آسمان تلے جلتے مرتے رہنے سے تو بہتر ہے کہ آدمی کے پاس اپنا ایک ڈبہ ہو جس کا وہ مالک ہو۔

جب بارش ہو تو ڈھکن بند کرلے۔

دھوپ ہو تو ڈبے کی دیوار کے سائے میں بیٹھ جائے ۔

ایسا نہیں ہے کہ آپ نے خواہش کی اور آپ کو رہائشی ڈبہ باآسانی مل گیا۔ ہرگز نہیں، بلکہ پہلے آپ کو حکومت کو درخواست دینی پڑے گی جس میں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ آپ اس قدر غریب ہیں کہ آسمان کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چھت دستیاب نہیں تبھی درخواست زیرِ غور لائی جائے گی۔

سخت جانچ پڑتال ہوتی ہے اور اگر آپ نے کسی بھی قسم کی غلط بیانی کی تو سزا کے طور پر آپ کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے اور بقیہ زندگی کھلے آسمان تلے گزارنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے لوگ بہت سوچ سمجھ کر درخواست دیتے ہیں۔ پھر سب ناموں کی قرعہ اندازی ہوتی ہے، کئی کامیاب ہوتے ہیں اورکئی ناکام۔

رونے اور چلانے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ رہائشی ڈبہ حاصل کرنا یقیناً خوش قسمتی کی علامت ہے۔ سڑک کنارے لیٹے اکتائے ہوئے لوگ، جوتشیوں کے پاس جاکر زائچے بنوا کر چیک کرتے ہیں کہ کب ان کی قسمت بدلے گی؟

مگر قسمت کا بدلنا کچھ اتنا آسان کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ان کی جیب میں نہیں۔


کہانی نمبر پانچ: ایک بے ربط مکالمہ


‘ایک چیونٹی جو دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر بڑی ہوگئی کہ اس نے مجھے نگل لیا۔ اس کے منہ میں ایک لیس دار مادہ تھا جو شاید اسے خوراک ہضم کرنے میں مدد دیتا ہو۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا چیونٹی مجھے کھا گئی اور میں چھوٹے چھوٹے ذروں میں بٹ گیا۔ اس کے منہ میں گول گول گھومتے ہوئے میں چاہ رہا تھا کہ ایسا نہ ہو مگر ایسا ہو رہا تھا۔ اور ایسا میں نے کئی بار خواب میں دیکھا۔ آپ نے ایسا کبھی دیکھا کہ خواب میں بھی بعض اوقات آدمی اذیت بالکل ویسے ہی محسوس کرنے لگتا ہے جیسے وہ سب کچھ اصل میں ہو رہا ہو۔ آپ میرا ناپ لے لیجیے، مجھے نئے کپڑے سلوانے ہیں۔ اب چونکہ میں چیونٹی کے چنگل سے بچ گیا ہوں تو مجھے اپنا حلیہ درست کرلینا چاہیے۔‘

‘میں درزی نہیں، ڈاکٹر ہوں۔‘

‘آپ کی شکل ہو بہ ہو ایک درزی سے ملتی ہے۔ اس درزی کا کوئی نام بھی تھا مگر مجھے یاد نہیں۔ ویسے میرا نام کیا ہے؟ میں نے شروع میں شاید آپ کو بتایا ہو۔ ایک منٹ رکیے۔ شناختی کارڈ تلاش کرنے دیجیے۔ معذرت دوسری جیب میں ہوگا۔ اس میں بھی نہیں۔ میں گھر بھول گیا ہوں۔ گھر؟

میں تو گھر سے آ ہی نہیں رہا۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میں کہاں سے آ رہا ہوں؟’

‘تم کہیں سے نہیں آرہے اور نہ کہیں جا رہے ہو۔ تم ہمیشہ سے یہیں پر تھے اور شاید ہمیشہ یہیں رہو۔‘


کہانی نمبر چھ: ایک دائرہ ہے زندگی


یہ ایک دیگچی ہے جسے سڑک کے بیچوں بیچ کوئی رکھ کر چلا گیا ہے۔ آتے جاتے لوگوں کے قدموں سے ٹکرا کر کبھی یہ ایک طرف لڑھک جاتی ہے تو کبھی دوسری طرف۔ اس کا پیندا ہی گول ہے۔ یہ بھلا ایک جگہ مضبوطی سے کس طرح رُک سکتی ہے۔ یہ کوئی نئی دیگچی نہیں، بہت استعمال شدہ ہے۔ اسے ایک آدمی نے اس عمارت سے چرایا تھا جو ابھی زیرِ تعمیر تھی اور مزدور اس دیگچی میں دن میں دو مرتبہ چائے بناتے تھے۔

وہ آدمی جب اس عمارت میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ تمام مزدور اپنے کام میں اس قدر منہمک ہیں کہ انہیں اپنے سامان کی خبر ہی نہیں۔ وہ بالکل بلی کی طرح بغیر چاپ کے چلتا ہوا اس ستون تک آیا جہاں یہ دیگچی اور 10 کپ موجود تھے۔ اس نے یہ سامان اٹھایا اور عمارت سے باہر نکل آیا۔ وہ خوش تھا کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا حالانکہ وہ کوئی باقاعدہ چور نہیں تھا۔ پہلے پہل تو اس عمارت میں داخل ہوتے وقت اس کا ارادہ تھا کہ وہ یہاں مزدوری کرے گا مگر بھوک کے باعث اس کے لیے اس خیال کو عملی جامہ پہنانا مشکل تھا۔

‘دس کپ اور دیگچی اگر بیچ دی جائے تو 2 وقت کا کھانا یقیناً مل سکتا ہے‘، اس نے سوچا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ تبھی اس کی نظر سڑک کنارے ایک ہجوم پر پڑی۔

‘مہربان، قدردان۔ آجاؤ اور دیکھو۔ دنیا میں کیسے کیسے عجائب ہیں۔ کوئی دھوکا، کوئی فراڈ نہیں۔ سب کچھ آپ کے سامنے۔ ایک تیز دھار تلوار جسم کے آر پار کروں گا۔ کوئی دھوکا کوئی فراڈ نہیں۔ بچے پیچھے اور بڑے آگے آجائیں۔ اگلی قطار والے بیٹھ جائیں تاکہ پیچھے والوں کو بھی نظر آئے۔ تو بھائی جان، مہربان، قدردان۔ آئٹم پسند آئے تو فنکار کی حوصلہ افزائی ضرور کریں۔‘

اگرچہ اسے آگے جانا تھا تاکہ دیگچی بیچ سکے مگر وہ تماشا دیکھنے میں منہمک ہوگیا۔ تماشا ختم ہوا۔ لوگ تالیاں بجا کر رخصت ہوگئے، فنکار کی ٹوپی نوٹوں سے بھر گئی۔ وہ آدمی جس نے دیگچی چرائی تھی، اپنا سب سامان وہیں چھوڑ کر اس فنکار کے پیچھے چل پڑا، دراصل اسے اب یہی تلوار چاہیے تھی اور دیگچی سڑک پر لڑھک رہی ہے۔

مزید پڑھیے: افسانہ: شہر بانو کے رونے کی آواز اور میری نیند


کہانی نمبر سات: خوابوں میں بندوق نہیں چلائی جاسکتی


ہم نے بھیڑیوں کو قصبے سے بھگانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی مگر ایک وقت آیا جب ہمیں محسوس ہونے لگا جیسے وہ انسانوں سے مقابلے پر اتر آئے ہیں، ہم جب انہیں کہتے کہ ‘ہش بھاگو یہاں سے‘، تو وہ ہمیں گھورنے لگ جاتے۔ ایسی خون خوار نگاہوں سے جن میں یہ پیغام جھلکتا دکھائی دیتا تھا کہ ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ، اب یہ قصبہ ہمارا ہے۔

وہ گروہ در گروہ لوگوں کے گھروں میں داخل ہوجاتے اور مکینوں کے کھانے پینے کا سامان حاصل کرلیتے۔

گوشت کو تو ان سے چھپانا تقریباً ناممکن تھا۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ بکریوں، بھیڑوں اور بیلوں کی طرح اب بھیڑیوں کو بھی پالتو جانوروں کی طرح سدھایا جاسکتا ہے اور یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔

شروع شروع میں بالکل ایسا ہی ہوا، قصبے کا ایک طبقہ دیکھتے ہی دیکھتے امیر ہوگیا۔ وہ بھیڑیوں کو پال کر برآمد کرنے لگے۔ طاقتور طبقے کی زیرِ پرستی بھیڑیوں کی نسل پھلنے پھولنے لگی۔ وہ گلیوں میں یوں آزادانہ گھومتے جیسے اصل مکین وہی ہوں۔ پھر بھیڑیوں کی جانب سے قصبے کے نادار اور کمزور لوگوں کو کاٹنے اور بھنبھوڑنے کے واقعات اس تواتر سے ہونے لگے کہ یہ کوئی خبر ہی نہ رہی۔ آخر آدمی کتنے واقعات پر حیرت زدہ ہوسکتاہے؟

لوگ واقعہ دیکھتے، رُکتے اور افسوس میں سر ہلا کر آگے بڑھ جاتے۔

ایک مدت بعد لوگوں نے رُکنا اور افسوس میں سر ہلانا بھی چھوڑ دیا۔

مگر قصبے کے بااثر لوگ اب بھی اس سے محفوظ تھے۔ انہوں نے اپنے گھروں کے آگے لوہے کے جنگلے بنالیے اور کہا کہ اب ہمارا ان بھیڑیوں اور ان کے کاروبار سے کچھ لینا دینا نہیں۔

کمزور اور نادار لوگ جنگلوں سے سر ٹکرا ٹکرا کر پوچھتے کہ اب ہم زندہ کیسے رہیں۔ یہ تو ہمیں ہر روز کاٹ کھارہے ہیں۔

‘زہر دے دو انہیں۔ ہمیں کوئی پروا نہیں۔‘

اگلے دن قصاب سے گوشت لے کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا۔ پھر اس پر زہر لگا کر گلیوں میں بکھیر دیاگیا۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ بھیڑیوں نے گوشت کے پارچوں کو چھوا تک نہیں۔

قصبے کے بااختیار لوگوں نے میٹنگ کی اور کہا کہ ’بھیڑیے اب نیلے تھوتھے کی بُو پہچانتے ہیں کہ ایسا ہم نے ہی انہیں سکھایا تھا۔ اس کے سوا کیا حل ہوگا کہ ہم اپنی اپنی بندوقیں سنبھالیں اور انہیں ختم کردیں۔ ویسے بھی اب یہ کوئی منافع بخش کاروبار بھی نہیں رہا۔‘

پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اپنے ہاتھ سے اپنے پالے ہوئے بھیڑیوں کو مار دیا اور چین کی نیند سونے لگے۔

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ہم جیسے قصبے کے کمزور عوام اب بھی پریشان ہیں کہ بھیڑیے ہمارے خوابوں میں گھس گئے ہیں۔

ہم نیند میں انہیں ‘ہش بھاگو یہاں سے’ کہتے رہتے ہیں مگر وہ ہمیں خونخوار نظروں سے گھورتے رہتے ہیں۔ ہماری بے بسی دیکھیے کہ خوابوں میں بندوق بھی نہیں چلائی جاسکتی۔

محمد جمیل اختر

پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔