پاکستان

او آئی سی کا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حلقہ بندیوں پر ‘شدید تشویش’ کا اظہار

مقبوضہ کشمیر میں حلقہ بندی سلامتی کونسل کی قراردادوں، بین الاقوامی قانون، فورتھ جنیوا کنونش کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، اوآئی سی

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے جنرل سیکریٹریٹ نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں اور کشمیر میں ازسر نو انتخابی حلقہ بندیوں، خطے کی جغرافیائی تبدیلی اور کشمیریوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر ‘شدید تشویش’ کا اظہار کردیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں او آئی سی کا کہنا تھا کہ حلقہ بندیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون سمیت فورتھ جنیوا کنونش کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: او آئی سی کمیشن کی مقبوضہ کشمیر میں نئی حلقہ بندیوں کی مذمت

بیان میں کہا گیا کہ ‘مسئلہ جموں اور کشمیر پر پائیدار اور اصولی مؤقف اور اسلامی سربراہی کانفرنس اور او آئی سی وزرائے خارجہ کے متعلقہ فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل سیکریٹریٹ نے جموں اور کشمیر کے عوام سے یواین ایس سی کی متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں ان کے حق خود ارادیت کے مقصد پر اظہار یک جہتی کا اعادہ کیا ہے’۔

او آئی سی نے عالمی برادری خصوصاً یو این ایس سی سے بھی مطالبہ کیا کہ اس طرح کی حلقہ بندیوں کے ‘گھمبیر نتائج’ کا فوری ادراک کریں۔

قبل ازیں رواں ماہ کے اوائل میں نئی دہلی نے مقبوضہ کشمیر کے لیے نئی سیاسی حلقہ بندیوں کی فہرست جاری کی تھی جس میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندو آبادی کو بہت بڑی نمائندگی دی گئی ہے اور نئے انتخابات کے لیے راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے 2019 میں مقبوضہ کشمیر میں اپنا قبضہ مزید مضبوط کرنے کے لیے خطے کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں نئی حلقہ بندیاں، ہندو اکثریتی علاقوں کو زیادہ نشستیں منتقل

مقبوضہ خطہ اصل میں مسلم اکثریتی وادی کشمیر، ہندو اکثریتی جموں کے خطے اور لداخ کے دور درازعلاقے بدھ مت افراد پر مشتمل تھا۔

تاہم ایک ماہ قبل بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ ایک حد بندی کمیشن نے لداخ کو چھوڑ کر مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے 90 حلقوں کو حتمی شکل دی ہے، جموں کے لیے 43 اور کشمیر کے لیے 47 نشستیں رکھی گئی ہیں، اس سے قبل جموں میں 37 اور وادی کشمیر کی 46 نشستیں تھیں۔

حلقہ بندیوں کے لیے بنائے گئے بھارتی کمیشن نے ایک بیان میں خطے کے ’عجیب جغرافیائی ثقافتی منظر نامے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ مختلف اطراف سے مسابقتی دعوؤں پر پورا اترنا مشکل ہے۔

جس کے بعد او آئی سی کے انسانی حقوق کمیشن نے جاری بیان میں حلقہ بندیوں کی شدید مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ بھارت کا یہ قدم عالمی انسانی حقوق اور انسانی قوانین کی خلاف وزری ہے۔

او آئی سی نے اس عمل کو ناپاک کوشش قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی حکومت انتخابات کے لیے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرکے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو کر اپنی مرضی کی کٹھ پتلی حکومت لانا چاہتی ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ ظالمانہ اقدامات مسلم اکثریتی آبادی کو ان کی اپنی زمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کا مقصد ہے اور یہ ان کے حق خوداردایت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔

وزیراعظم کا چینی ہم منصب سے رابطہ، سی پیک منصوبے تیزی سے آگے بڑھانے کیلئے’پختہ عزم‘ کا اظہار

فواد چوہدری کے ماتحت پی ٹی آئی ٹولے نے سوشل میڈیا پر کردار کشی کی، عامر لیاقت

پیمرا کی ٹی وی چینلز کو ریاستی اداروں کےخلاف ‘نفرت انگیز مواد’ نشر کرنے پر دوبارہ تنبیہ