پاکستان

معاشی ایمرجنسی نہیں لگارہے، نہ ہی غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس منجمد کریں گے، مفتاح اسمٰعیل

وزیر اعظم شہباز شریف حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے کسی وقت سادگی کے اقدامات کا اعلان کریں گے، وزیر خزانہ
|

وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا ہے کہ معاشی ایمرجنسی نافذ کرنے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں، پیٹرول کی قیمت میں دو بار اضافہ کرکے اقتصادی بحران سے باہر نکل آئے ہیں۔

مفتاح اسمٰعیل نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے کسی وقت سادگی کے اقدامات کا اعلان کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس یا عوام کے نجی لاکرز کو منجمد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، سوشل میڈیا پر آنے والی خبریں غلط اور جانب دارانہ حلقوں کی جانب سے پھیلائی جارہی ہیں۔

بعد ازاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس (ایف سی اے)، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس (آر ڈی اے) اور سیفٹی ڈپازٹ لاکرز کے بارے میں پھیلائے جانے والے دعووں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان سری لنکا نہیں، نہ حالات اس جیسے ہیں، قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک

مزید بتایا گیا کہ حکومت پاکستان اور ایس بی پی پاکستانی بینکوں میں تمام غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس اور سیفٹی ڈپازٹ لاکرز کے حوالے سے یقین دہانی کرواتا ہے کہ یہ اکاؤنٹس اور لاکرز مکمل طور پر محفوظ ہیں اور ان پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی لگانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔

میڈیا کو جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ حکومت یا مرکزی بینک غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس اور سیفٹی ڈپازٹ لاکرز پر پابندی لگانے یا منجمد کرنے کا سوچ رہے ہیں، یہ تمام افواہیں غلط اور بے بنیاد ہیں۔

مزید بتایا گیا کہ یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی تجاویز گزشتہ دور میں اور نہ ہی حال میں زیر غور رہی ہے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ غیر ملکی اکاؤنٹس جس میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس بھی شامل ہے اسے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس (پروٹیکشن) آرڈیننس 2001 کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہے۔

مزید کہا گیا کہ حکومت اور مرکزی بینک، پاکستان میں متذکرہ بالا سمیت تمام مالیاتی اثاثوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کو ‘مشکل فیصلے’ کرنے ہوں گے، مفتاح اسمٰعیل کا آئی ایم ایف سے اتفاق

خیال رہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی ماہرین نے حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے کی تجویز دی تھی تاکہ ملک میں جاری بڑھتی مہنگائی، ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر قابو پایا جاسکے۔

اسی طرح مختلف حلقوں نے آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کے ساتھ پُرتعیش مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کیا تھا، جبکہ متعدد حلقوں کی جانب سے حکومت پر سخت اقدامات کے لیے زور دیا جارہا تھا کہ ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے اور ملک کی صورتحال سری لنکا جیسی ہوسکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک پوڈ کاسٹ میں کہا تھا کہ ہم سری لنکا نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے حالات اس جیسے ہیں، درحقیقت گزشتہ 2 برسوں میں 6 فیصد جی ڈی پی کی شرح نمو پوری دنیا کے لیے حیرت انگیز دھچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے اور کورونا کے بعد اشیا کی بلند قیمتوں کی وجہ سے بہت سے ممالک کی معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں، سری لنکا ان میں سے ایک ہے لیکن انہوں نے مناسب انتظام نہیں کیا اور کچھ غلط یا دیر سے فیصلے لیے جس سے ملک کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں مزید 30 روپے فی لیٹر بڑھانے کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان سری لنکا نہیں ہے، وہ کورونا سے بری طرح متاثر ہوا کیونکہ سیاحت سے ان کی آمدنی ختم ہوگئی، ان کی سیاحت پر مبنی معیشت چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی، 2 سال تک انہوں نے بجٹ خسارہ بڑھنے دیا جس سے کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ آیا‘۔

ڈاکٹر مرتضیٰ سید کا کہنا تھا سری لنکا نے 2 سال تک شرح سود میں اضافہ نہیں کیا، شرح تبادلہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی، جس کا مطلب ہے کہ وہ شرح تبادلہ کو مطلوبہ سطح پر رکھنے کے لیے اپنے ذخائر استعمال کر رہے تھے، اس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ کا بڑا خسارہ ہوا اور ان کے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ سری لنکا نے عوامی قرض کا انتظام نہیں کیا جو 2 سال تک بڑھتا رہا، ان کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی، شرح سود اچانک بڑھ گئی اور معیشت بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہی، عوامی قرضہ بے قابو ہوگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے بعد پاکستان انتہائی محتاط رہا، اسٹیٹ بینک نے تعاون فراہم کیا جبکہ حکومت نے زیادہ محتاط اور مخصوص اہداف کے مطابق حکمت عملی اپنائی۔

دریں اثنا حکومت نے دو بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 60 روپے سے زائد کا اضافہ کیا، اسی طرح حکومت نے 800 سے زائد پُرتعیش اشیا کی درآمد پر بھی پابندی عائد کی تھیں۔

مہوش حیات نے ’مس مارول‘ کا حصہ ہونے کی تصدیق کردی

اسلامی تعاون تنظیم کی توہین آمیز تبصروں پر بھارت پر تنقید

'پارٹی گیٹ' اسکینڈل کے بعد بورس جانسن کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام