پاکستان

دہشت گردی کے مسئلے سے متعلق تمام فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں، بلاول بھٹو

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ان کی جماعت آگے بڑھنے کے راستے پر اتفاق رائے کے لیے اتحادی جماعتوں سے رابطہ کرے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے جاری مذاکرات سمیت دہشت گردی سے متعلق تمام فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں۔

وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے متعدد مواقعوں پر بتایا ہے کہ وہ ذاتی طور پر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں، انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت آگے بڑھنے کے راستے پر اتفاق رائے کے لیے اتحادی جماعتوں سے رابطہ کرے گی۔

ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی نے دہشت گردی کے مسائل، خاص طور پر افغانستان کی موجودہ صورتحال، تحریک طالبان افغانستان (ٹی ٹی اے) اور ٹی ٹی پی کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی سمجھتی ہے کہ تمام تر فیصلے پالیمنٹ کو کرنے چاہئیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے زیرِ صدرات اجلاس میں پارٹی کے سینئر رہنما یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، مراد علی شاہ، شیری رحمٰن، خورشید شاہ، فریال تالپور، نئیر بخاری، نجم الدین، فیصل کریم کنڈی، ہمایوں خان، قمر زمان کائرہ، چوہدری یاسین، چوہدری منظور، ندیم افضل چن، اخونزادہ چٹان، رخسانہ بنگش، نثار کھوڑو اور فرحت اللہ بابر نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کی عدم توجہ سے کشمیری اپنی سرزمین میں اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں، وزیرخارجہ

اخونزادہ چٹان پاکستانی قبائل وفود میں شامل تھے جو مہینے کے شروع میں مذکرات کے لیے کابل گیا تھا۔

اجلاس کے بعد جاری بیان میں پی پی پی نے کہا کہ تمام تر فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے ہونے چاہئیں، لہٰذا پارلیمنٹ کو تمام فیصلوں میں لازمی شامل کیا جائے۔

افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت اسلام آباد کے کابل میں موجود ٹی ٹی پی کے قائدین کے ساتھ امن مذاکرات میں سہولت فراہم کررہی ہے۔

گزشتہ ماہ حکومت اور ٹی ٹی پی نے غیر معینہ مدت تک کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور قبائلی سرحدی علاقے میں دو دہائیوں سے جاری عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا جنگ بندی میں توسیع کا اعلان

50 اراکین پر مشتمل قبائلی جرگے نے بھی مذاکرات میں حصہ لیا تھا، کابل میں پاکستانی حکام نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ بات چیت میں پیش رفت سنجیدہ مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔

اس وقت ڈان ایڈیٹوریل میں کہا گیا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی کے مطالبات تسلیم کیے گئے تو یہ قبائلی پٹی کے مختلف حصوں میں ریاست کے اختیار کو سرنڈر کرنے کے مترادف ہوگا جہاں عسکریت پسند فعال تھے۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ عسکری گروپس کو ریاست کو حکم دینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ سیکیورٹی فورسز کہاں جاسکتی ہیں اور کہاں نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں بڑی پیشرفت کے بغیر جرگہ کابل سے واپس آگیا

مزید یہ کہ فاٹا کا خیبرپختونخوا میں 2018 میں انضمام آئینی عمل کا حصہ ہے اور اسے ٹی ٹی پی کی خواہشات کے مطابق واپس نہیں لیا جاسکتا، تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے، عسکریت پسندوں کے ساتھ پائیدار امن کے پہلو تاریک ہیں۔

پی پی پی نے پی ٹی آئی کی سابق حکومت میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا، پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے مذکرات کو 'شہدا کے خون سے غداری' کے مترادف قرار دیا تھا۔

پرویز مشرف کی وطن واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، خواجہ آصف

بجٹ23-2022: 'ٹیکس سے ہونے والی آمدن کا 56 فیصد قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوگا'

شوکت ترین نے بجٹ کو 'انتہائی غیر سنجیدہ' قرار دے دیا