پاکستان

'سپر ٹیکس' صنعتی شعبے پر بڑا حملہ ہے، اسد عمر

آج اصل بجٹ کا اعلان کیا گیا ہے، جس میں اربوں روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں جو کہ سینیٹ کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے، سابق وزیرخزانہ

سابق وزیر خزانہ و پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما اسد عمر نے حکومت کی جانب سے سپر ٹیکس کے اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اصل بجٹ آج مکمل ہوا ہے اس لیے سینیٹ کو آج سے 14 دن کا وقت دیا جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو بجٹ غیر آئینی ہو جائے گا اور عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ اپنی 30 منٹ کی بجٹ تقریر میں وزیراعظم نے مشکل سے 45 سیکنڈ اربوں روپے کے نئے ٹیکس لاگو کرنے پر بات کی اور بقایا 29 منٹس انہوں نے صرف نوادرات پیش کیے۔

اسد عمر نے کہا کہ وزیر اعظم میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ بجٹ قومی اسمبلی کے فلور پر جاکر پیش کر دیں اور یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ قومی اسمبلی کے بجائے وزیر اعظم نے بجٹ میں کیے گئے اقدامات کا باہر بیٹھ کر ایک کمرے میں اعلان کیا۔

وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے کہا گیا ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے لیکن ان کو یاد دلاتا چلوں کہ جب انہوں نے حکومت چھوڑی تھی تو اس وقت جون 2018 میں پاکستان اسٹیٹ بینک کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر 9.7 ارب ڈالر موجود تھے لیکن جب بیرونی سازش کے تحت عدم اعتماد کی تحریک پیش کر کے عمران خان کی حکومت گرائی گئی تو اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 16.4 ارب ڈالر موجود تھے تو میاں صاحب کو بتا دوں کہ ملک دیوالیہ نہیں بلکہ بہتری کی طرف جا رہا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا بڑی صنعتوں پر 10 فیصد ’سپر ٹیکس‘ لگانے کا اعلان

انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی 2018 کی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا تقابلی جائزہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں چھوڑے ہوئے زر مبادلہ کے ذخائر میں 7 ارب ڈالر کا اضافہ کیا اور معاشی ترقی کی رفتار 6 فیصد ہو چکی تھی اور صنعتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ فصلوں، برآمدات اور ترسیلات کے ریکارڈ قائم ہو رہے تھے۔

اسد عمر نے کہا کہ جس دن عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی اس دن سے لے کرگزشتہ ہفتے تک ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بالکل آدھے ہو چکے ہیں جو کہ 16.4 ارب ڈالر سے کم ہو کر 8.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں مطلب کہ صرف 3 مہینوں کے اندر ہمارے آدھے زر مبادلہ کے ذخائر اڑ گئے اور ملک کا دیوالیہ پن میاں صاحب کی حکومت آنے کے بعد ہوا ہے۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ایندھن، گیس، بجلی، چینی، آٹا، گھی وغیر مہنگا کرنے کے بعد آج اربوں روپے کے نئے ٹیکس لاگو کرنے کے بعد بھی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کوئی نیا مطالبہ نہیں کیا تو پھر ہمارا معاہدہ طے ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب حکومت نے معیشت کی ترقی اور روزگار پیدا کرنے میں مددگار صنعتی شعبے پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن آج کا بجٹ اس شعبے پر بہت بڑا حملہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کی تقریر سے اسٹاک مارکیٹ میں 2 ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی آئی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس خود کو ریلیف دینے کے لیے اربوں اور کھربوں روپے ہیں مگر جس وقت غریب عوام پر بوجھ ڈالنے کی بات آتی ہے تو یہ بہانے بنانے لگتے ہیں کہ کیا کریں آئی ایم ایف بات نہیں مان رہا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں 3 معاونین خصوصی کا اضافہ، کابینہ کی تعداد 55 ہوگئی

اسد عمر نے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج شہباز شریف نے بڑا عظیم معاشی فلسفہ پیش کیا ہے کہ میں جان لڑا کر، پوری رات جاگ کر مہنگائی کم کروں گا تو کیا اب ہم یہ سمجھیں کہ میاں صاحب کا کپڑے بیچ کر مہنگائی کم کرنے والا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کو یہ فکر ہے کہ ان کو لانے والے کیا چاہتے ہیں یعنی وہ امریکا جس نے بقول قومی سلامتی کے اجلاس کے کہ اس نے واضح بیرونی مداخلت کی وہ کیا چاہتا ہے، کیا وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ان سے خوش ہوگا۔

'حکومت نے اصل بجٹ آج پیش کیا'

اسد عمر نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اصل بجٹ آج پیش کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق جب بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو سینیٹ کے پاس اس پر بحث اور اپنے مشاہدات اور تحفظات پیش کرنے کے لیے 14 دن کا وقت ہوتا ہے لیکن یہ لوگ اتنے ہوشیار تھے کہ انہوں نے 11 جون کو پیش کیے گئے بجٹ کو عارضی بجٹ کا نام دے دیا۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ان لوگوں نے 14 دن گزار دیئے اور آج اصل بجٹ کا اعلان کیا جس میں اربوں روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں جو کہ سینیٹ کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ چونکہ بجٹ آج مکمل ہوا ہے اس لیے سینیٹ کو آج سے 14 دن کا وقت دیا جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو بجٹ غیر آئینی ہو جائے گا اور اس لیے اس سے عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ آج تمام پیداواری ذرائع اور روزگار دینے والی چھوٹی بڑی کپمنیوں پر بھاری ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے اور جن کے بارے میں عمران خان ہمیشہ کہتے تھے کہ یہ سب اندر سے ایک ہیں اب وہ لوگ صرف اندر سے نہیں بلکہ کھل کر باہر سے بھی ایک ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ہم پیپلز پارٹی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ پنجاب میں ضمنی انتخابات مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر لڑیں گے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ چور کس طرف کھڑے ہیں۔

مزید پڑھیں: معاہدے کی پاسداری نہ کرنے پر آئی ایم ایف نے کہا ہمیں آپ پر اعتبار نہیں، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں اس پیدوارای شعبے پر ٹیکس کم کیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے امیر لوگوں پر جو ٹیکس لگایا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

سپر ٹیکس سے معیشت تباہ ہو رہی ہے، حماد اظہر

سابق وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس کا مطلب ہے کہ ’پہلے سے ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس لگانا‘ جو کہ معیشت کے اہم شعبے کو نچوڑ دے گا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ معیشت تباہ ہو رہی ہے اور اس وقت ایسا اقدام پی ٹی آئی کی پیدا کردہ صنعتی رفتار کم کر دے گا۔

حماد اظہر نے کہا کہ صنعت کو اجناس اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور اس سپر ٹیکس کی قیمت ان شعبوں کی بیلنس شیٹ میں رکھی جائے گی اور مختلف طریقوں سے صارفین تک لاگو ہوگی جس کا مطلب عوام کے لیے قیمتوں میں اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوگا۔

حکومت کی معاشی پالیسیاں پاکستان کو دیوالیہ کر رہی ہیں، فواد چوہدری

سابق وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ جب وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی میڈیا سے گفتگو کے بعد اسٹاک مارکیٹ بری طرح کریش کر جائے اورکرنسی کی قدر بری طرح کم ہو جائے تو ان حالات سے حکومت پر اعتماد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : وزیراعظم کی پانچ اہم اشیا پر سبسڈی کی فراہمی جاری رکھنے کی ہدایت

انہوں نے کہا کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں پاکستان کو دیوالیہ کر رہی ہیں اس ٹولے سے جلد از جلد نجات ہی پاکستان کا مفاد ہے۔

تاہم، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے ٹوئٹر پر بیان میں وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کو مخاطب کرکے کہا کہ مفتاح میاں، بیرون ملک پی ایچ ڈی کے ساتھ آپ کو اپنے منظور شدہ اکنامک سروے کو تسلیم کرنا چاہیے تھا، جس میں تحریک انصاف کی گزشتہ دو برس میں شان دار کارکردگی کا ثبوت ملتا ہے لیکن آپ لوگوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا اب مارکیٹ کو آپ پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستانیوں کو غربت سے نکالنے اور معیشت کو فروغ دینے کے لیے اقتصادی ٹیم نے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد ’سپر ٹیکس‘ لگانے کا اعلان کیا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری مسترد کر دی

سپر ٹیکس ایک ایسا ٹیکس ہوتا ہے جو کسی بھی حکومت کی جانب سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے آمدن پر ایک اضافی طور پر لگایا جاتا ہے۔

معاشی ٹیم کے اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے اہم فیصلے کیے ہیں، ان فیصلوں پر میں عوام کو اعتماد میں لینا اور حالات سے متعلق آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آج جو فیصلے کیے گئے ان کے دو مقاصد ہیں، پہلا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی پُر خلوص کوشش کی جائے اور مہنگائی کے بوجھ کے نتیجے میں کچھ آسودگی اور ریلیف عوام کو مہیا کیا جائے۔

اسلام آباد: 2017 سے اب تک 235 ریپ مقدمات میں صرف 3 ملزمان کو سزا

خابی لامے ٹک ٹاک پر سب سے زیادہ فالو کیے جانے والی شخصیت بن گئے

الزائمر کے مریضوں کی دیکھ بھال کیسے کریں؟