نقطہ نظر

کیا کراچی کی قسمت میں ڈوبنا ہی لکھا ہے؟

اس قسم کی تباہی اگر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھی جائے تو اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ یہ شہر ہر سال اس سیلابی صورتحال کا سامنا کرتا ہے۔

ایسا ہر سال ہی ہوتا ہے۔ اس سال بھی شدید گرمی کی لہر کے بعد بارشیں ہوئیں اور بارش کے ہوتے ہی کراچی ڈوب گیا۔

بارش کے ہوتے ہی شہر کی مرکزی سڑکیں زیرِ آب آگئیں اور ان کے زیرِ آب آتے ہی بجلی بھی چلی گئی۔ یوں کے الیکٹرک کے صارفین جو عید منانے کی منصوبہ بندی کررہے تھے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں میں عید کی خوشیاں مناتا شہرِ کراچی ایک زیرِ آب شہری جنگل میں تبدیل ہوگیا تھا۔

اس قسم کی تباہی اگر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھی جائے تو اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ 2 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والا یہ شہر ہر سال اس سیلابی صورتحال کا سامنا کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر کی چند سڑکیں ہی اس طرح تعمیر کی گئی ہیں کہ وہاں سے بارش کا پانی برساتی نالوں کے ذریعے سمندر میں جاسکے۔ کراچی کے بیشتر علاقوں میں پانی کے گزرنے کے لیے یا تو نالے موجود ہی نہیں یا پھر بہت ناقص ہیں، اس کے علاوہ بے ڈھنگی طرز پر بنی گلیاں پانی کو ایک جگہ روک لیتی ہیں۔

اس مرتبہ اس صورتحال میں ایک اور مشکل عید الاضحٰی اور قربانی کے جانوروں کی صورت میں پیش آئی۔ شہر میں جگہ جگہ جانوروں کی منڈیاں لگی تھیں جہاں زیادہ تر گائے اور بکرے فروخت کیے جارہے تھے اور اس سیلابی صورتحال میں وہ جانور یا تو ڈوب گئے یا انہیں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ویسے بارش کے بغیر بھی کراچی میں عید الاضحیٰ بہت ہی مشکل گزرتی ہے۔

مزید پڑھیے: ’کراچی پہلے بارشوں کے لیے تیار تھا نہ اب ہے‘

ہر سال شہری اپنے گھر کے باہر سڑک پر ہی قربانی کے جانور ذبح کرتے ہیں۔ جہاں کھانے کے قابل گوشت کو کاٹ کر تقسیم کردیا جاتا ہے وہیں جانور کے دیگر حصوں کو آوارہ جانور لے جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ بُرا کام تو یہ کیا جاتا ہے کہ آلائشوں کو کھلی کچرا کنڈیوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ وہاں وہ آلائشیں یوں ہی پڑی رہتی ہیں اور حفظانِ صحت کے مسائل کا باعث بنتی ہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ آپ کا محلہ خوش قسمت ہو اور وہاں سے بلدیہ کی جانب سے کچرا اٹھا دیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ اکثر علاقے خوش قسمت نہیں ہوتے۔ لوگ اپنے گھروں کے اندر گوشت کے مزے اڑا رہے ہوتے ہیں تو باہر کھلے میں پڑی آلائشیں مکھیوں اور جراثیم کی آماجگاہ بنی ہوتی ہیں۔ یوں اس عید پر وہ بھی مزے اڑا رہے ہوتے ہیں اور ہر اس چیز پر ہاتھ صاف کرتے ہیں جو انہیں مل جائے۔ سڑکوں (اور کچرے) کے زیرِ آب آنے کا مطلب ہے کہ یہ سب چیزیں پانی میں مل جاتی ہیں اور پھر بیماریوں سے بھرا یہ گندا پانی پورے شہر سے ہوکر گزرتا ہے۔

بجلی منقطع ہونے سے الگ مشکلات جنم لیتی ہیں۔ قربانی کے گوشت کو یا تو پکانا ہوتا ہے یا اسے ریفریجریٹ کرنا ہوتا ہے۔ اگر اسے ریفریجریٹ نہ کیا جائے اور گیس کی فراہمی بھی منقطع ہوجائے تو اس کا مطلب ہے کہ گوشت خراب ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ایک مشکل ہے کیونکہ اگر کوئی یہ خراب گوشت کھالے تو وہ بیمار پڑسکتا ہے۔ جانور خریدنے اور قربانی پر ہونے والے اخراجات کو دیکھتے ہوئے اکثر لوگ پہلے گوشت کھانے اور بعد میں بیماری کے بارے میں فکر مند ہونے کو ترجیح دیں گے۔

جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کے علاوہ کورونا وائرس کی مشکل بھی موجود ہے اور عید پر اس میں اضافہ متوقع ہے۔ تیزی سے پھیلنے والی نئی اقسام کی وجہ سے کورونا مثبت آنے کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے۔ عید کے موقع پر رشتے داروں اور دوست احباب کے ایک دوسرے سے ملنے (اگر وہ زیرِ آب سڑکوں کے باوجود بھی ملنے آسکیں) میں جو خطرہ موجود ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ اس سال عید پر اپنے پیاروں سے ملنا خصوصی طور پر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ لوگ ایک دوسرے کو کورونا وائرس لگا سکتے ہیں یا پھر انہیں خراب گوشت کھلا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیے: زبوں حالی کا شکار کراچی اور اس کے دم توڑتے بلدیاتی ادارے

شہر میں ہر کسی کو اس پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہاں کے امیر ترین لوگ پہلے ہی خلیجی ممالک یا اس جیسے دیگر مقامات کا رخ کرچکے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اس مسئلے سے بچنے کا یہی حل ہے کہ کراچی میں گرمیاں نہ گزاری جائیں۔ جو لوگ یہاں رہ جاتے ہیں انہیں نجی جنریٹروں کے ذریعے خود ہی بجلی کا انتظام کرنا پڑتا ہے تاکہ ان کے گھر ٹھنڈے رہیں اور ان کا کھانا بھی محفوظ رہے۔ اگر کوئی اس طبقے سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی عید اچھی گزرے گی اور ممکن ہے کہ بارش ان کے لیے خطرہ بننے کے بجائے عید کی خوشیوں میں ایک رومانوی اضافہ بن جائے۔

ہاں اگر کوئی شہر کے ان پوش علاقوں میں رہتا ہے جو ڈوب چکے ہیں تو اور بات ہے۔ اس بارے میں بھی کوئی حیرانی نہیں ہے کہ شہر میں موجود دولت کا یہ فرق اس بات کی وجہ بنتا ہے کہ شہری اپنے معاشی اور معاشرتی مقام کے مطابق الگ الگ طرح سے عید منائیں گے۔

ایک فعال شہر میں عید الاضحیٰ کے موقع پر کچرا اٹھانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جاتے، جانوروں کو قربان کرنے کے لیے خصوصی مقامات مختص کیے جاتے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ آلائشیں زیرِ آب علاقوں تک نہ پہنچیں اور بیماریوں کا سبب نہ بنیں۔

تصور کے اس کراچی میں کے الیکٹرک بھی اس بات کو یقینی بناتا کہ بارش کے باوجود بھی بجلی کی فراہمی میں خلل نہ آئے اور اگر کہیں بجلی کی فراہمی متاثر بھی ہو تو اس کو بحال کرنے کے لیے خصوصی عملہ موجود ہو۔ اس طرح کے اقدامات کا مطلب ہوگا کہ شدید بارشوں کے نتیجے میں وہ جانی و مالی نقصان نہیں ہوگا جو ہر سال ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: کراچی کی ساحلی پٹی پر موجود عمارتیں کس قدر محفوظ ہیں؟

کراچی کے ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آخر اس قسم کے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے۔ ہر سال اس طرح کے مضامین کے ذریعے شہر میں نکاسی آب کا مناسب نظام بنانے کی اپیل کی جاتی ہے۔ اسی طرح قربانی کے بعد سڑکوں پر آلائشوں سے پیدا ہونے والے حفظانِ صحت کے مسائل پر بھی بات کی جاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر کسی کو علم ہے کہ کیا کچھ کیا جانا چاہیے اور ٹیکس ادا کرنے والے لاکھوں لوگوں کو امید ہے کہ یہ سب کچھ کیا جائے گا اور یہی چیز صورتحال کو مایوس کن بنادیتی ہے۔

شہر کے ڈھانچے اور میونسپل انتظامیہ کی حالت اتنی خستہ ہے کہ اوپر ذکر کی گئی تمام چیزوں کا ملنا ایک خواب لگتا ہے۔ بارش کے پانی میں ڈوبے کراچی میں امید ان سادہ سی چیزوں کا نام ہے کہ شاید یہ بارشیں اتنی تباہ کن نہ ہوں، یہ کہ بجلی صرف چند گھنٹوں کے لیے ہی منقطع ہو اور سڑکوں پر جمع پانی کسی نہ کسی طرح نکل جائے۔ ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے منتظر کراچی کے شہری معمولی سہولیات کے ہی عادی ہوگئے ہیں اور وہ ان سہولیات کے ساتھ ہی عید منا سکتے ہیں۔


یہ مضمون 13 جولائی 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔