پاکستان

جولائی میں مہنگائی 24.9 فیصد اضافے کے ساتھ 14 برس کی بلند سطح پر پہنچ گئی

گزشتہ مہینے افراط زر کی سال بہ سال شرح 21.3 فیصد تھی جو 13 برس میں مہنگائی کی بلند سطح تھی۔

کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) نے تازہ اعداد و شمار میں بتایا ہے کہ رواں برس جولائی میں افراط زر کی شرح 24 اعشاریہ 93 فیصد تک پہنچ گئی ہے جو نومبر 2008 کے بعد سال بہ سال بلند ترین سطح پر ریکارڈ اضافہ ہے۔

قومی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق جون مہینے کے مقابلے میں سی پی آئی کے افراط زر میں 4.35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مہینے افراط زر کی سال بہ سال شرح 21.3 فیصد پر ہوئی تھی جو 13 برس میں بلند سطح کی افراط زر تھی۔

مزید پڑھیں: مہنگائی کی شرح ڈھائی سال کی بلند ترین سطح 13.76 فیصد پر پہنچ گئی

اعداد و شمار کے مطابق شہری علاقوں میں افراط زر میں اضافے کی شرح 23.6 فیصد ریکارڈ ہوئی جبکہ دیہی علاقوں میں 26.93 فیصد افراط زر ریکارڈ کی گئی ہے۔

مہنگائی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ٹرانسپورٹ کو قرار دیا گیا، جس کی شرح میں سال بہ سال 64.73 فیصد اضافہ ہوا، اس کے بعد خوراک کی قیمت میں32.93 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ناقابل تلافی خوراک میں 28.12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اعداد وشمار کے مطابق تعلیم اور مواصلات میں بالترتیب 9.79 فیصد اور 4.09 فیصد اضافہ ہوا، دیگر تمام شعبوں میں دہرے ہندسوں کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

جن شعبوں کی قیمتوں میں دوہرہ اضافہ ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:-

ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں میں 24.97 فیصد مہنگائی ہوئی ہے، نشہ آور مشروبات اور تمباکو میں 22.48 فیصد اضافہ ہوا، ہاؤسنگ اور یوٹلٹیز میں 21.78 فیصد، فرنشننگ اور گھریلو سامان کی مرمت والی اشیا میں 19.69 فیصد، متفرق سامان اور خدمات میں 17.14 فیصد اضافہ ہوا، تفریح اور ثقافت میں 15.41 فیصد، کپڑوں اور جوتوں کی قیمتوں میں 14.57 فیصد اور صحت کے شعبے میں 11.22 فیصد تک قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

قومی ادارہ شماریات کے اعلامیے کے مطابق گاڑیوں کے ایندھن میں سال بہ سال 99 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے بعد توانائی کے شعبے میں 86 فیصد جبکہ مائع شدہ ہائیڈرو کاربن میں 51 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ سال کے مقابلے میں جن اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا، ان میں دالیں، پیاز، گھی اور کوکنگ آئل شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں مہنگائی دو سال کی بلند ترین سطح 12.96 فیصد تک پہنچ گئی

قبل ازیں وزارت خزانہ نے جولائی کے لیے اپنے ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ اور آؤٹ لک میں کہا تھا کہ نومبر 2021 سے سال بہ سال دہرے ہندسے میں جاری افراط زر جولائی میں مزید جاری رہے گا اور جون میں مشاہدہ کی گئی سطح کے ارد گرد گھوم رہا ہے، جس کی وجہ بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں میں خاص طور پر توانائی میں اضافہ اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے۔

آؤٹ لک میں کہا گیا تھا کہ نہ صرف بین الاقوامی اجناس کی قیمتیں بلکہ شرح مبادلہ میں کمی سے افراط زر متاثر ہوئی ہے۔

وزارت خزانہ کے آؤٹ لک میں تسلیم کیا گیا تھا کہ گزشتہ دو مہینوں خاص طور پر سپلائی کی قلت کی وجہ سے بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، جس کے اثرات کی وجہ سے قیمتیں برقرار رکھنے کی حکومتی کوششیں متاثر ہوئیں۔

خبردار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سیاسی عدم استحکام حکمرانی کے مسائل بڑھا رہا ہے اور مارکیٹ میں مزید بے چینی پیدا کر رہا ہے جو کہ پہلے ہی زر مبادلہ کے ذخائر کی کمی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے متاثر ہے۔

مزید پڑھیں : اپریل میں مہنگائی 13.37فیصد کے ساتھ 2سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

آؤٹ لک میں مزید کہا گیا تھا کہ مہنگائی اور بیرونی شعبے کے خطرات معیشت میں میکرو اکنامک عدم توازن پیدا کر رہے ہیں جبکہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام معاشی بے یقینی میں اضافہ کر رہا ہے، جس کی وجہ سے روپے کی گراوٹ جاری ہے اور اس کا اثر پیداواری لاگت پر بھی پڑ رہا ہے اور یہ تمام عوامل معاشی نکتہ نظر کو غیر یقینی بنا رہے ہیں۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخاب کےخلاف درخواست پر سبطین خان و دیگر کو نوٹس

کیا موجودہ معاشی بحران واقعی اب تک کا سخت ترین معاشی بحران ہے؟

ٹوئٹر پر ٹوئٹ کو پرائیویٹ رکھنے اور اپڈیٹ کرنے کے نئے فیچرز کی آزمائش