پاکستان

چیف الیکشن کمشنر کے خلاف پی ٹی آئی کا ریفرنس واپس، 'مزید نکات شامل کیے جائیں گے'

پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف دائر ریفرنس واپس لے لیا اور کہا کہ مزید نکات شامل کیے جائیں گے۔

پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف جمع کرایا گیا ریفرنس واپس لے لیا۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی نے کہا کہ ریفرنس میں مزید قانونی نکات شامل کیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے ایک روز بعد گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

پی ٹی آئی کا چیف الیکشن کمشنر کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس

قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے ایک روز بعد چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔

پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان کے توسط سے دائر کیے گئے ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی گئی کہ وہ مسلسل اور دانستہ طور پر کی گئی بدانتظامی پر چیف الیکشن کمیشن کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت، الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنادیا

ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہے کہ 29 جولائی کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ایک وفد نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر 4 اراکین سے ان کے دفتر میں ملاقات کی تاکہ ان پر ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔

درخواست میں یہ مؤقف اپنایا گیا کہ اس ملاقات کا نتیجہ تھا کہ الیکشن کمیشن نے 2 اگست کو فیصلہ سنانے کا فیصلہ کیا۔

ریفرنس میں استدلال کیا گیا کہ اس طرح سے چیف الیکشن کمشنر نے مبینہ طور پر اپنے عہدے کے حلف کی خلاف ورزی کی۔

ریفرنس میں پی ٹی آئی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر قانونی، خلاف ضابطہ اور اس کے دائرہ اختیار سے ماورا ہے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت، قانونی نتائج کیا ہوسکتے ہیں ؟

دائر ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔

ریفرنس میں مزید استدلال کیا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اور وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں بخوبی سر انجام دینے میں میں ناکام رہے ہیں۔

اپنی درخواست میں پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے طے شدہ ضابطہ اخلاق کا اطلاق چیف الیکشن کمشنر پر بھی ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ کا جج کبھی کسی شخص یا ادارے کے ساتھ زیر التوا کیسز سے متعلق تبادلہ خیال نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست نہیں، چیلنج کریں گے، فواد چوہدری

ریفرنس میں کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر کو انتہائی قابل احترام اور مقدس آئینی عہدے سے ہٹایا جانا چاہیے۔

مشترکہ سماعت

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی متعدد درخواستیں خارج کیں جن میں پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے فنڈنگ کیسز کی ایک ساتھ سماعت کرنے کی درخواست بھی شامل تھی۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرے اور ان کے مقدمات کو محتاط انداز میں مستقل مزاجی کے ساتھ سنے اور مناسب وقت کے اندر ان کے کیسز کا فیصلہ کرے۔

ریفرنس میں شکایت کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ بالا حکم کی تعمیل کے بجائے الیکشن کمیشن نے صرف پی ٹی آئی کے کیس کا فیصلہ سنایا اور دیگر جماعتوں کے مقدمات کو التوا میں رکھا جو کہ مکمل طور پر امتیازی سلوک ہے۔

مزید پڑھیں : الیکشن کمشنر کی حکومتی وفد سے ملاقات، ریفرنس بھیج کر برخاست کرنے کیلئے 'فٹ' کیس ہے، فواد چوہدری

درخواست میں کہا گیا کہ یہ معمول کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر وکلا فورمز کے ارکان سے ملاقاتیں کرتے ہیں لیکن حال ہی میں دیکھا گیا کہ پرویز الٰہی کے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف کیس میں سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وفد سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے لیکن انہوں نے نہ صرف پی ڈی ایم کے وفد سے ملاقات کی بلکہ یہ بھی مانا کہ پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں فیصلے کے وقت سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

ریفرنس میں ماضی کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے 2018 میں الیکشن کمیشن کو پیپلز پارٹی سے متعلق فنڈنگ کیس کو ایک ماہ میں نمٹانے کا کہا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے صرف چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کو عام انتخابات میں فائدہ پہنچانے کے لیے نے اس حکم کی تعمیل نہیں.

درخواست میں کہا گیا کہ 9 اپریل کو قومی اسمبلی کے 125 ارکان اپنی نشستوں سے مستعفی ہوگئے تھے، اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے مستعفی اراکین کے استعفے قبول کرلیے لیکن اس حوالے سے بھی الیکشن کمیشن کا امتیازی رویہ دیکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عارف نقوی کے فنڈز بینکنگ چینلز سے آئے اور پارٹی اکاؤنٹس میں ظاہر کیے گئے، عمران خان

ان کے استعفے 13 اپریل کو گزٹ میں شائع کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے لیکن انہیں ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا جب کہ موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی نے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کرتے ہوئے 125 میں سے 11 ارکان کے استعفے منظور کر کے ای سی پی کو بھیجے جنہیں فوری طور پر ڈی نوٹیفائی کردیا گیا۔

پی ٹی آئی نےدرخواست میں الزام لگایا کہ مسلم لیگ (ن) کے رکن پنجاب اسمبلی محمد کاشف چوہدری کی نااہلی کیس میں چیف الیکشن کمشنر نے ڈی نوٹیفیکیشن میں تاخیر کی لیکن جب مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق رکن پنجاب اسمبلی فیصل نیازی نے اپنی پارٹی سے علیحدگی کے لیے اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا تو بھی انہوں نے ڈی نوٹیفیکیشن میں تاخیر کی۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین

ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کو متعارف کرانے کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں تاکہ پی ٹی آئی کے مخالفین 'انتخابات کے دوران دھاندلی کر سکیں'۔

ریفرنس میں ایہ دعویٰ بھی دہرایا گیا کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی زیرقیادت حکومت کو 8 مارچ کو امریکی ڈپٹی انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کی جانب سے جاری کردہ سائفر کی بنیاد پر شروع کی گئی سازش کے تحت گرایا گیا۔

'ایمن الظواہری کو نشانہ بنانے والا ڈرون کرغزستان سے اڑا'

کامن ویلتھ گیمز : کانسی کے تمغے کے بعد پاکستان نے پہلا طلائی تمغہ بھی جیت لیا

ہر 8 ماہ بعد خوبصورتی بڑھانے کا علاج کرواتی ہوں، صبا فیصل