نقطہ نظر

وہ اہم معاملات جو موسمی آفات کے نتیجے میں ہم بھول جاتے ہیں

حکومت کی جانب سے ترقیاتی کاموں کا ’ریزیلینس آڈٹ‘ نہیں کیا گیا تھا جس سے معلوم ہوتا کہ یہ سخت موسم کو برداشت کرسکتے ہیں یا نہیں۔

بلوچستان مستقبل میں پاکستان کو درپیش ہونے والے موسمی حالات کی پیشگوئی کررہا ہے۔ مسلسل جاری رہنے والی شدید بارشیں، سیلاب، لینڈ سلائڈنگ اور پھر گرم موسم اور ہیٹ ویوز سے جو تباہی اور جانی نقصان ہوا ہے اس سے بچا جاسکتا تھا۔

ان موسی حالات اور سیلاب کی وجہ سے کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں اور صوبہ قیمتی زمینوں سے بھی محروم ہوگیا۔ اس کے علاوہ کئی انفرادی اور مشترکہ اثاثے جیسے مکانات، مال مویشی، باغات، سولر پینل، سڑکیں، پُل، ریل کی پٹریاں، چھوٹے ڈیم اور ممکنہ طور پر کئی اسکول اور اسپتالوں کا بھی نقصان ہوا۔

صوبے کو پنجاب اور سندھ سے ملانے والی سڑکیں بھی متاثر ہوئیں جس سے صوبے کا ملک سے رابطہ محدود ہوگیا۔ اس سے مقامی تجارت، ملک کے بالائی حصوں سے اشیا کی آمد، کوئٹہ-قندھار ہائی وے کے ذریعے افغانستان اور کوئٹہ-تفتان نیشنل ہائی وے کے ذریعے ایران کے ساتھ تجارت بھی رک گئی ہے۔ اس سیلاب نے کئی برسوں میں ہونے والی ترقی کو ختم کردیا ہے۔

مزید پڑھیے: آفت زدہ بلوچستان اور حکومتی سنجیدگی

بلوچستان میں آنے والے سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور حکومتی ردِعمل بہت غیر مربوط اور ناکافی ہے۔ شدید موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے یہاں کوئی جامع روڈ میپ نہیں ہے۔ طویل مدتی حل پیش کرنے کے بجائے، وقتی حل پیش کیے جارہے ہیں جو زمینی حقائق اور مستقبل کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگی نہیں ہیں۔ اس سیلاب کو ایک الگ تھلگ واقعہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ موسمی حالات کے حوالے سے زیادہ منظم اور طویل مدتی ردِعمل کا متقاضی ہے۔

وزیرِاعظم نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور ان لوگوں کے لیے نقد امداد کا اعلان کیا جن کے پیارے اس سیلاب کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا جن کے مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ ان کے پیش نظر بھی تعمیرِ نو کی جگہ فوری ضرورت کو پورا کرنا ہی ہے۔ انہوں نے صورتحال کا جائزہ لینے اور رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے تاہم ابھی یہ نہیں معلوم کہ اس کمیٹی میں کون کون شامل ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس میں شاید ہی صوبے کا کوئی نمائندہ شامل ہو۔

اگرچہ وزیرِاعظم کی نیت کو سراہنا چاہیے لیکن معاملے کی پیچیدگی اور تاریخی عدم توجہی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ فوری رپورٹوں سے حل نہیں ہوگا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) حکومت نے ’آغازِ حقوقِ بلوچستان‘ پیکج کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے برابری پیکج کا اعلان کیا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت نے جنوبی بلوچستان کے لیے 601 ارب روپے کا ترقیاتی پیکج جاری کیا۔ یہ تمام اقدامات سیاسی نوعیت کے تھے جو صوبے کو درپیش موسمی خطرات کے حل میں ناکام رہے۔ ان میں سے کوئی بھی منصوبہ موسمی تبدیلی کی بنیاد پر ہونے والے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے نہیں تھا اور اسی وجہ سے یہ منصوبے سیلاب اور طویل قحط کو روکنے اور اس حوالے سے مناسب حکمتِ عملی فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے۔

آگے بڑھنے کے لیے کمیٹی کے لیے 2 تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔

رسک ٹرانسفر

وزیرِاعظم کی اعلان کردہ نقد رقم جلد یا بدیر جاری ہونا شروع ہوجائے گی لیکن یہ متاثرہ گھرانوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگی۔ وفاقی حکومت کی اپنی حالت بھی بہت اچھی نہیں ہے۔ پی ایس ڈی پی بھی تقریباً نصف ہوکر اب 550 ارب روپے ہی رہ گیا ہے۔ اس وقت تقریباً ایک ہزار 260 نامکمل سرکاری ترقیاتی منصوبے ہیں جن کی تکمیل کے لیے 6 کھرب 20 ارب روپے کی ضرورت ہی۔ یہ مالی وسائل کی تنگی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

وزیرِاعظم کو چاہیے تھا کہ کسی فلاحی شخصیت کے طور پر کام کرنے کے بجائے ایک خصوصی ٹرسٹ فنڈ قائم کرتے جس کا مقصد موسمی حالت کے تناظر میں کسانوں کو 5 شعبہ جات میں انشورنس یا رسک ٹرانسفر فراہم کرنا ہوتا۔ ان 5 شعبہ جات میں کھڑی فصلیں، مال مویشی، مکانات، گھر کے برسرِ روزگار افراد اور چھوٹے کاروبار شامل ہوتے۔

مزید پڑھیے: موسمیاتی تبدیلی کس طرح پاکستان میں خوراک کا بحران پیدا کرسکتی ہے؟

کیٹَسٹراف بانڈز کے ذریعے ٹرسٹ فنڈ کی تشکیل ایک بہترین کام ہوگا جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی طرح رقوم کی تقسیم پیچیدہ انشورنس میکانزم کے بجائے ’ٹرگر بیسڈ‘ ہوگی۔ فلپائن سے ترکی اور کریبیئن تک کئی ممالک کامیابی سے اس راستے پر چل رہے ہیں۔

بی آئی ایس پی کے مینڈیٹ کو بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پچھلی حکومت نے اسے کورونا ایمرجنسی کے دوران استعمال تو کیا تھا لیکن وہ اپنے احساس پروگرام کو ادارے کی شکل دینے میں کامیاب نہیں ہوئی، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بی آئی ایس پی کو مفت کھانا فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔

پاکستان کے ترقیاتی شراکت داروں نے کئی برسوں تک وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا ہے اور ایک معتبر ادارہ بنانے میں مدد کی ہے۔ پاکستان کے پاس اب یہ صلاحیت اور تجربہ ہے کہ وہ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں خشک سالی، ہیٹ ویو اور سیلاب جیسی موسمی آفات پر طویل مدتی ردِعمل کے طور پر مضبوط ٹرسٹ فنڈ تشکیل دے سکتا ہے۔

ہنگامی ردِعمل

یہ قدرتی حادثات اب مزید تواتر اور شدت کے ساتھ رونما ہورہے ہیں۔ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں گزشتہ کئی دہائیوں کے ترقیاتی کاموں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس نقصان کی اصل وجہ غیر معمولی بارشیں نہیں بلکہ یہ تھی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ترقیاتی کاموں کا ’ریزیلینس آڈٹ‘ نہیں کیا گیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منصوبے سخت موسمی حالات کو برداشت کرسکتے ہیں یا نہیں۔

دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی تعمیراتی معیارات بہت پرانے ہیں۔ یہ ان موسمی تغیرات کے مطابق نہیں ہیں جو اب معمول بن چکے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً تمام اہم انفرااسٹرکچر نیس پاک (نیشنل انجینئرنگ سروسز)، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے ڈیزائن اور تعمیر کیے جاتے ہیں۔ ان اداروں نے اب تک تعمیرات میں موسمی تغیرات کے مطابق معیارات متعارف نہیں کروائے ہیں۔

یہ ادارے پاکستان آرمی کور آف انجینئرز اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ساتھ مل کر تعمیراتی معیارات پر نظرثانی اور ان میں بہتری لاسکتے ہیں۔ ان معیارات پر نہ صرف بڑے سرکاری ٹھیکے داروں کو عمل کرنا ہوگا بلکہ میونسپل کارپوریشنز، ہاؤسنگ سوسائٹیز اور پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ساتھ ساتھ شدید موسمی خطرات سے دوچار مختلف آمدنی والے گروپ بھی ان پر عمل کریں گے۔ لوگوں کو رہنمائی کی ضرورت ہے اور غریبوں کو اس کی اشد ضرورت ہے۔ آئیے انہیں بار بار انہی آفات کا سامنا کرنے کے لیے تنہا نہ چھوڑیں۔

پہلے سے تعمیر شدہ منصوبوں کی مرمت بھی انتہائی اہم کام ہے۔ درحقیقت اگر ہم گزشتہ 7 دہائیوں میں ہونے والی تعمیرات کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر نئے تعمیراتی منصوبوں پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ یہ پابندی اس وقت تک رہنی چاہیے جب تک صوبائی حکومتیں موسمی تغیرات کے مطابق تعمیراتی اصول وضح کرکے انہیں اختیار نہ کرلیں۔

مزید پڑھیے: کیا کراچی کی قسمت میں ڈوبنا ہی لکھا ہے؟

2005ء کے زلزلے میں ہم نے 32 اضلاع میں 7 ہزار 923 اسکول اور 33 ہزار کلاس رومز کھو دیے تھے۔ شاید ہم اس انسانی المیے میں اس قدر مصروف تھے کہ ہم تعمیراتی اصولوں اور معیارات پر توجہ ہی نہیں دے سکے۔ لیکن اب ہم اس معاملے کو مزید نہیں ٹال سکتے۔

ہر قدرتی آفت کا پہلا شکار سول انتظامیہ ہوتی ہے۔ مقامی حکومتیں عموماً ناپید ہوتی ہیں اور ہنگامی اسٹاک کو بھی شاز و نادر ہی برقرار رکھا جاتا ہے جس سے ان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور ان کا کردار مزید کم ہوجاتا ہے۔

عموماً اس خلا کو فوج کے ریلیف آپریشن کی صورت میں پُر کیا جاتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) ہی وہ ادارہ ہے جو ’سینڈائی فریم ورک فار ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن‘ کو نافذ کرتا ہے۔ جب تک ضلعی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیاں موسمی اثرات کا مقابلہ کرنے والے ترقیاتی منصوبوں میں مقامی حکومتوں کی مدد نہیں کرتیں تب تک این ڈی ایم اے اور اس کے صوبائی ادارے کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔


یہ مضمون 4 اگست 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

علی توقیر شیخ

لکھاری اسلام آباد میں واقع لیڈ پاکستان نامی ماحولیات اور ترقیاتی مسائل پر خصوصی طور پر کام کرنے والی تھنک ٹینک کے سی ای او ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔