پاکستان

پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کی تحقیقات کی نگرانی کیلئے ایف آئی اے کی ٹیم تشکیل

ایف آئی اے ڈائریکٹر کی سربراہی میں مانیٹرنگ ٹیم ہر زون میں متعلقہ انکوائری ٹیموں کے ساتھ رابطے اور رہنمائی کی ذمہ دار ہوگی۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے حکم سے متعلق معاملے کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کے متعلقہ زونز کی انکوائری ٹیموں کی نگرانی کے لیے پانچ رکنی ٹیم تشکیل دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کے اقتصادی جرائم ونگ کے ڈائریکٹر کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر محمد اطہر وحید کی سربراہی میں ایف آئی اے مانیٹرنگ ٹیم ہر زون میں متعلقہ انکوائری ٹیموں کے ساتھ رابطہ کاری اور رہنمائی کی ذمہ دار ہوگی۔

ایف آئی اے کی ٹیم کو ای سی پی کے تین رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے کے چند روز بعد نوٹیفائیڈ کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کو 2014 سے زیر التوا کیس میں ممنوعہ فنڈنگ ملی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا پی ٹی آئی کےخلاف سپریم کورٹ ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ

ایف آئی اے کے نوٹیفکیشن کے مطابق پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے سیکشن 6 کے تحت تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر خالد انیس، ڈپٹی ڈائریکٹر خواجہ حماد، چوہدری اعجاز احمد اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اعجاز احمد شیخ اس ٹیم کے رکن ہوں گے جنہیں پی ٹی آئی کے فنڈنگ کیس میں جاری انکوائریوں کی نگرانی کا کام سونپا گیا ہے۔

'ہراسانی' کےخلاف پی ٹی آئی کے عملے کی درخواست

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے نچلے عملے نے غیر ملکی فنڈنگ کی مبینہ وصولی پر ایف آئی اے کی جانب سے شروع کی گئی انکوائری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق پی ٹی آئی کے مالیاتی بورڈ نے 2011 میں پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ کے چار ملازمین، ٹیلی فون آپریٹر (طاہر اقبال)، کمپیوٹر آپریٹر (محمد نعمان افضل)، اکاؤنٹنٹ (محمد ارشد) اور پی ٹی آئی کے آفس ہیلپر (محمد رفیق)، کو ۔ پاکستان کے اندر اور بیرون ملک ان کے ذاتی اکاؤنٹس میں فنڈز وصول کرنے کی اجازت دی تھی۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت، الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنادیا

اپنی درخواست میں اقبال، ارشد اور رفیق اپنے وکیل شاہ خاور کے توسط سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس جسٹس عامر فاروق کے سامنے پیش ہوئے۔

پی ٹی آئی کے عملے نے الزام لگایا کہ جب وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس میں ملازمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا ایف آئی اے کی انسپکٹر ریحانہ کوثر نے انہیں ہراساں کرنا شروع کیا۔

تفتیشی ایجنسی کی جانب سے اسے بدنیتی قرار دیتے ہوئے وکیل نے دلیل دی کہ وزیر کی پریس کانفرنس کے بعد آدھی رات کو ان کے مؤکلوں کو نوٹس جاری کیے گئے اور عدالت سے درخواست کی کہ نوٹسز کو کالعدم قرار دیا جائے۔

تاہم جسٹس فاروق نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 اگست تک جواب طلب کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کو ممنوعہ فنڈنگ کس نے کی؟

غیر ملکی فنڈنگ کیس میں شکایت کنندہ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر کے مطابق ملازمین کے اکاؤنٹس میں ایک کروڑ 11 لاکھ 4 ہزار روپے کی رقم جمع کرائی گئی جو ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زائد تھی۔

2016 اور 2017 میں اکبر ایس بابر نے اس معاملے کی انکوائری شروع کرنے کے لیے حکام کو خط لکھا تھا لیکن مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔

جہاں تک اکاؤنٹ کی تفصیلات کا تعلق ہے پی ٹی آئی کے ٹیلی فون آپریٹر کو اپنے اکاؤنٹ میں 47 لاکھ 15 ہزار روپے موصول ہوئے جب ان کی ماہانہ آمدنی 28,000 روپے تھی، پی ٹی آئی کے اکاؤنٹنٹ کو دو اکاؤنٹس میں 8 لاکھ 40 ہزار اور 9 لاکھ 59 ہزار روپے ملے جبکہ وہ ماہانہ 42 ہزار روپے کما رہے تھے۔

اسی طرح آفس ہیلپر رفیق کو 47 لاکھ 25 ہزار روپے ملے جبکہ اس کی ماہانہ آمدنی 23 ہزار روپے تھی، ایک اور اکاؤنٹ میں 23 لاکھ 79 ہزار روپے جمع کرائے گئے۔

متحدہ عرب امارات کا پاکستانی کمپنیوں میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ

عمران خان چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کی حمایت کرنے والے 'نیوٹرلز' کا نام بتائیں، حکومتی رہنما

آزاد جموں و کشمیر بھر میں بھارت کے خلاف یوم استحصال منایا گیا