پاکستان

کابل میں اغوا کے بعد ‘جسمانی تشدد’ کیا گیا، صحافی انس ملک

ہمیں طالبان نے اٹھایا تھا جہاں ہم حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر کوریج کے لیے پہنچے تھے، صحافی

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں لاپتہ ہونے کے بعد واپس آنے والے پاکستانی صحافی انس ملک نے کہا ہے کہ انہیں اس دوران ‘جسمانی تشدد’ کا نشانہ بنایا گیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انس ملک نے اپنے ادارے کو دیے گئے بیان کی توثیق کرتے ہوئے لکھا کہ ‘میرے ڈرائیور اور افغانستان میں مقامی پروڈیوسر کو بھی طالبان حکام 42 گھنٹوں تک حراست میں رکھنے بعد رہا کردیا ہے’۔

مزید پڑھیں: پاکستانی صحافی انس ملک کابل سے باحفاظت واپس آ گئے ہیں، پاکستانی سفیر

انہوں نے لکھا کہ ‘طالبان حکام کی جانب سے مجھے 21 گھنٹوں کے بعد رہا کردیا گیا تھا اور میں بخیریت واپس آگیا ہوں’۔

قبل ازیں بھاری نیوز چینل ویون سے منسلک پاکستانی صحافی انس ملک کے حوالے سے پاکستان میں دفترخارجہ اور کابل میں سفیر منصور خان نے ٹوئٹر پر بتایا دیا تھا کہ انس ملک ‘کابل میں خیریت سے ہیں’۔

بعدازاں نیوز چینل نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ انس ملک کو درحقیقت ‘طالبان نے اٹھایا تھا’۔

ویڈیو رپورٹ میں انس ملک نے نیوز چینل کو بتایا تھا کہ ‘مجھے گزشتہ روز اٹھایا گیا تھا، جنہیں ہم کابل میں طالبان کے طور پر جانتے ہیں’۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’21 گھنٹے کا دورانیہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا تھا، مجھے، میرے مقامی پروڈیوسر اور ڈرائیور میرے ساتھ تھے جہاں جمعرات کو عام ویڈیوز بنا رہے تھے تو اٹھایا گیا تھا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں وہاں اس سے ایک روز قبل کابل پہنچا تھا تاکہ طالبان کی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر کوریج کریں کہ اب افغانستان کیسا ہے’۔

صحافی کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں روکا کیا گیا، گھسیٹ کر کار سے باہر نکالا گیا، ہمارے فون لے لیے گئے اور پھر ہمیں جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، میرے عملے پر بھی تشدد کیا گیا اور مجھے بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘کچھ دیر بعد ہمیں اس جگہ سے منتقل کیا گیا جہاں ہمیں روکا گیا وہ جگہ جی ڈی آئی یا گرینڈ ڈائریکٹری آف انٹیلیجنس کہلاتی ہے، جی ڈی آئی افغان طالبان کا یونٹ ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھیوں سے ان کے صحاف سے متعلق سوالات پوچھے گئے اور ذاتی سوالات بھی کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی صحافت: آگ کا دریا

انس ملک نے بتایا کہ جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق شام کے تقریباً 9:30 بجے ایک کمرے میں لے جایا گیا اور آگاہ کیا گیا کہ انہیں صبح رہا کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جمعے کو صبح 10:10 بجے رہا کردیا۔

انس ملک نے بتایا کہ وہ اور ان کی ٹیم اسائنمنٹ پر کابل میں تھے، جس کی دہلی کی طرف سے اجازت دی گئی اور تمام پریس کے تمام ثبوت موجود تھے۔

نیوز چینل کو انہوں نے کہا کہ میرے صحافتی دستاویزات تاحال مجھے نہیں دیے گئے، ایکریڈیٹیشن لیٹر اور اجازت نامہ بھی میرے پاس نہیں ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مقامی پروڈیوسر اور ڈروائیور ان کے ساتھ کام کر رہے تھے اور وہ تاحال طالبان کی حراست میں ہیں۔

بعد ازاں ویون نے ٹوئٹ میں بتایا کہ عملے کے دونوں اراکین کو ’42 گھنٹوں کے بعد رہا کیا گیا’۔

صحافتی لاپتہ

صحافی انس ملک کی گمشدگی کی اطلاع جمعرات کو ملی تھی اور ترجمان دفترخارجہ عاصم افتخار نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم دفتر خارجہ کے نمائندے انس ملک کے کل کابل سے لاپتا ہونے پر شدید تشویش میں مبتلا ہیں، ہم ان کی جلد اور محفوظ پاکستان واپسی کے لیے مقامی حکام اور افغانستان میں پاکستانی عہدیداروں سے رابطے میں ہیں۔

عاصم افتخار نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ انس ملک کے لاپتا ہونے کی اطلاع جمعرات کو ملی تھی اور وہ چند روز قبل رپورٹنگ کے مقصد کے تحت افغانستان گئے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے صحافی کی گمشدگی کا نوٹس لے لیا ہے اور پاکستانی سفیر نے کابل میں افغان حکام کے ساتھ اس معاملے کو اٹھایا ہے، وزیر خارجہ بلاول نے ذاتی طور پر انس ملک کے بارے میں پوچھا اور ہدایات جاری کی تھیں کہ ان کی محفوظ واپسی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

دفتر خارجہ نے انس ملک کی گمشدگی پر پاکستان میں افغان سفارت خانے سے رابطہ کر کے کہا تھا کہ ہم نے اپنی تشویش سے افغان حکام کو واضح طور پر آگاہ کر دیا ہے اور ہم کابل اور اسلام آباد دونوں میں ان کے ناظم الامور کے ذریعے اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

عاصم افتخار نے کہا تھا کہ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے دوست انس کے ٹھکانے کا پتہ لگانے اور اس کی حفاظت، سلامتی اور باحفاظت واپسی یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔

صحافی کے بھائی حسن نے جمعہ کی صبح سویرے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انس ملک کابل میں 12 گھنٹے سے زائد عرصے سے لاپتا ہیں اور حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی تیز اور باحفاظت بازیابی یقینی بنائیں۔

انہوں نے بی بی سی اردو کے ایک نامہ نگار کو علیحدہ طور پر بتایا کہ انس ملک بدھ کو افغانستان کے لیے روانہ ہوئے تھے اور آخری بار ان کا رابطہ اسی دن آدھی رات کے قریب ہوا تھا۔

حسن نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے نے ان سے رابطہ کیا ہے اور انہیں یقین دلایا ہے کہ انس ملک کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ انس ملک نے دو روز قبل ٹوئٹر پر شیئر کیا تھا کہ وہ افغانستان واپس آ گئے ہیں جہاں سے وہ گزشتہ سال امریکی انخلا کے بعد سے رپورٹنگ کر رہے تھے۔

انس ملک کی مبینہ گمشدگی کی خبریں منظر عام پر آنے سے پہلے ویون کی طرف سے شائع ہونے والی ان کی آخری کہانی میں وہ گھر دکھایا گیا تھا جہاں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری مقیم تھے جنہیں امریکا نے ڈرون حملے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔

نیو میکسیکو: مسلم شہریوں کو نشانہ بنا کر قتل کیے جانے کا خدشہ ہے، امریکی پولیس

قدرتی نظاروں میں وقت گزارنے کےدرجنوں طبی فوائد ہیں، تحقیق

ایمن الظواہری کی ہلاکت: پاکستانی زمین نہیں بلکہ فضا کے استعمال کا 'سوال' ہے، فواد چوہدری