پاکستان

امریکا منجمد افغان اثاثوں کو بحال کرے، پاکستان کا مطالبہ

امریکا طالبان حکومت کو ان فنڈز کو افغانستان میں معاشی اور انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے، دفتر خارجہ

پاکستان نے ایک بار پھر امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ افغان اثاثوں کو غیرمنجمد کرے اور طالبان حکومت کو مشروط طور پر ان فنڈز کو جنگ سے تباہ حال ملک میں معاشی اور انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے جمعہ کو ہفتہ وار میڈیا کانفرنس میں کہا کہ امریکا میں رکھے گئے افغان اثاثوں کو فوری طور پر جاری کیا جانا چاہیے اور اسے اس طریقے سے کرنا چاہیے کہ عبوری حکام کے لیے اس رقم کو استعمال کرنے میں آسانی ہو۔

وہ ان رپورٹس سے متعلق ایک سوال کا جواب دے رہے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ فنڈز کو غیر منجمد کرنے کے عمل میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی گزشتہ ماہ کے آخر میں کابل میں ہلاکت کے بعد امریکا میں یہ خدشات جم لے رہے ہیں کہ اس رقم کو دہشت گرد گروپوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔

امریکی حکومت نے گزشتہ سال طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد افغانستان کی زیر ملکیت 7 ارب ڈالر منجمد کر دیے تھے، صدر بائیڈن نے اس سال کے اوائل میں یہ رقم 11 ستمبر کے دہشت گرد حملوں کے متاثرین کے خاندانوں اور مصیبت زدہ افغانوں کے لیے امداد کی مد میں برابر تقسیم کی۔

تب سے واشنگٹن ان فنڈز کے اجرا کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کر رہا ہے، ایمن الظواہری کی ہلاکت نے امریکا میں طالبان کے انسداد دہشت گردی کے وعدوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو تقویت دی ہے۔

عاصم افتخار نے یاد دلایا کہ پاکستان بھی چاہتا ہے کہ اس رقم کی بحالی کے لیے شرائط عائد کی جائیں، انہوں نے خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ امریکا نے گزشتہ ایک سال کے دوران افغانستان کو بہت زیادہ انسانی امداد فراہم کی ہے۔

ترجمان نے سینٹ کام کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا کے حالیہ دورے اور دیگر دو طرفہ مصروفیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو طرفہ ایجنڈے کے علاوہ دونوں فریقوں نے افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے عمران خان کی حکومت کو ہٹائے جانے کے بعد سابق وزیراعظم کی جانب سے عائد کردہ الزامات کے سبب تعلقات میں تناؤ اور پھر بحالی کا ذر کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک اس وزارت اور سیاسی قیادت کا تعلق ہے تو ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ دوسری طرف واشنگٹن میں بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یہ ایک اہم رشتہ ہے جسے ہمیں باہمی اعتماد اور دلچسپی کی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔

کیا ہم واقعی 21ویں صدی میں رہ رہے ہیں؟

کراچی میں تیزی سے ایچ آئی وی پھیلنے کا انکشاف

ورلڈ جونیئر اسکواش: پاکستان کے ہاتھوں بھارت کو شکست