پاکستان

عمران خان بتائیں پاکستان آرمی میں کب میرٹ پر تقرریاں نہیں ہوئیں، خواجہ آصف

عمران خان سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ایسے بیانات دے رہے ہیں، اداروں پر حملہ کرکے کہتے ہیں میں نے میرٹ کی بات کی، وزیر دفاع

وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے گزشتہ دنوں آرمی چیف کے تقرر سے متعلق متنازع بیان پر ردعمل دیتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ عمران خان بتائیں پاکستان آرمی میں کب میرٹ پر تقرریاں نہیں ہوئیں۔

اسلام آباد میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب وزیر دفاع نے کہا کہ گزشتہ دنوں عمران خان نے آرمی چیف کے تقرر سے متعلق ایک متنازع بیان دیا اور پھر کل انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت دینے کی کوشش کی، کل انہوں نے اپنی بات کو نئے معانی و مطالب دینے کی کوشش کی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان ایسے بیانات ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت دے رہے ہیں، پہلے اداروں پر حملہ کیا جاتا ہے، ان کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، ان کی کوشش ہے کہ اداروں کو مضمحل کیا جائے اور ردعمل دیکھا جائے، اس کے بعد اس میں کچھ جمع تفریق کرکے کہا جائے کہ میں نے تو میرٹ کی بات کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف کی فوج کو اپنا چیف خود منتخب کرنے کی تجویز پر پی ٹی آئی کی جانب سےتنقید

ان کا کہنا تھا کہ میرے ہوش میں آج تک، ایک دو کے علاوہ، پاک فوج میں ہونے والے تمام تقرر و تبادلے میرٹ پر ہوئے ہیں، فوج کی قیادت کی جانب سے سینئر ترین افسران کے جو بھی چار یا پانچ نام آتے ہیں، ان افسران میں سے وزیر اعظم اپنی مشاورت اور کنسلٹیشن کے ساتھ آرمی چیف، نیول چیف یا ایئر چیف تعینات کردیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ عمران خان کی اپنی جماعت کے لوگ بھی ان سے کترانے لگے ہیں، ان کی پارٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں کہ عمران خان نے کیا کہا، ہم نے سنا ہی نہیں، میں مصروف تھا ان کی تقریر سن نہیں سکا، اس لیے اس پر ردعمل نہیں دے سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا کوئی رہنما کہتا ہے کہ مجھے ان کے بیان کا سیاق و سباق نہیں پتا، پرسوں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت عارف علوی نے بھی عمران خان کے بیان سے اظہار لاتعلقی کیا۔

'عمران خان آنے والی عسکری قیادت سے متعلق شکوک پیدا کر رہے ہیں'

وزیر دفاع نے کہا کہ سابق وزیراعظم بتائیں کہ پاکستان آرمی میں کب میرٹ پر تعیناتی نہیں ہوئی، ہماری حکومت کی جانب سے کی گئی آخری تعیناتی جو کہ موجودہ آرمی چیف کی ہے، اس تعیناتی کی انہوں نے توثیق کی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کی وطن واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، خواجہ آصف

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں گزشتہ 3 سال کے دوران انہوں نے جتنی موجودہ آرمی چیف کی تعریفیں کی ہیں، اتنی تعریف شاہد ہی کسی اور کی ہوں، یہاں تک کہ عمران خان خود بڑے بڑے اہم اجلاس میں نہیں آتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف پر عمران خان کے اعتماد کا عالم یہ تھا کہ آرمی چیف اہم اجلاسوں کی صدارت کرتے تھے اور عمران خان خود ان میں نہیں آتے تھے، عمران خان کی جگہ سیاسی اور سیکیورٹی بریفنگ آرمی چیف کے حوالے ہوتی تھیں۔

'عمران خان بتائیں کیا عثمان بزدار، وزیر اعلیٰ کے پی کا تقرر میرٹ پر کیا گیا'

خواجہ آصف نے کہا کہ آج جب کہ اقتدار نہیں رہا تو افواج پاکستان کی پوری قیادت پر حملہ کر رہے ہیں اور جان بوجھ کر آنے والی عسکری قیادت سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان میرٹ کی بات کرتے ہیں، بتائیں کیا عثمان بزدار، وزیر اعلیٰ کے پی کا تقرر اور انتخاب میرٹ پر کیا گیا ہے، بی آر ٹی انکوائری بند کرادی، توشہ خانہ کے تحائف کا جواب نہیں دیتے، برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے ملنے 18 کروڑ پاؤنڈ کیوں بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹ میں چلے گئے، سوہائے میں یونیورسٹی کا جواب نہیں دیتے، کیا یہ سب معاملات میرٹ پر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف صاحب، صنفی تعصب معمولی بد تمیزی نہیں

انہوں نے کہا کہ عمران خان میرٹ کا دعویٰ کرتے ہیں تو کیا ان کے اپنے ہاتھ صاف ہیں، ان کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، ساڑھے 3 سال میں انہوں نے کونسی ٹرانزیکشن میرٹ پر کی ہے، ادویات، چینی، گندم سے متعلق اسکینڈلز کی تحقیقات کیں، کسی کرپشن کیس کی تحقیقات نہیں ہوئیں، کیا یہ میرٹ تھا، رانا ثنااللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس میرٹ تھا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ کیا یہ میرٹ ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں نکال دیا جائے تو آپ اس کا ذمہ دار کبھی کسی کو ٹھہرائیں، کبھی کسی ادارے کو ٹھہرائیں، کبھی امریکا کو قرار دیں اور ساتھ ہی 25 ہزار ڈالر پر ماہانہ اس کو خوش کرنے کے لیے فرم بھی رکھ لیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے توشہ خانہ سے متعلق تحقیقات کی سفارش بھیج دی ہے، 18 کروڑ پاؤنڈ کے معاملے پر انکوائری مکمل کرلی ہے، نیب نے اس کا نوٹس بھی لے لیا ہے، 200 پیشیاں نواز شریف اور ان کی بیٹی نے بھگتی ہیں، یہ ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوتا ہے، یہ مثالیں خلفائے راشدین کی دیتا ہے، باتیں ریاست مدینہ کی کرتا ہے، آج عمران خان کی اپنی پارٹی خود اس سے اظہار لاتعلقی کر رہی ہے، اس کی پارٹی میں کوئی اس کا دفاع نہیں کر رہا۔

مزید پڑھیں: سیشن جج کے فیصلے کے خلاف خواجہ آصف کی درخواست پر وزیر اعظم کو نوٹس جاری

وزیر دفاع نے کہا کہ عمران خان نے کل اپنے بیان پر قلابازی کھانے کی کوشش کی، یہ جان بوجھ کر ایسے بیانات دے رہا ہے کہ پہلے بیان دیا جائے، جب ردعمل آئے تو کہا جائے کہ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے نواز شریف کے منتخب کردہ بندے کی توثیق کرتے ہیں، اس کی تعریفیں کرتے ہیں اور آج کہتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری اپنی کرپشن کے تحفظ کےلیے تقرر کر رہے ہیں جب کہ اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ادارے موجود ہیں جو اس کی کرپشن کی تحقیقات کر رہے ہیں اور فارن فنڈنگ سمیت دیگر کیسز کی یہ تحقیقات کافی آگے بڑھ چکی ہیں، یہ تمام چیزیں سامنے آئیں گی اور زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ ان سب چیزوں کا حساب ہوگا، ان پر ہاتھ تب ڈالیں گے جب ہمارے پاس پکے ثبوت اور مضبوط شواہد ہوں گے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ رانا ثنااللہ کی گرفتاری کے وقت نارکوٹکس کی وزارت میں جو جنرل تعینات تھے، اس معاملے پر ان کا ورژن اور نکتہ نظر بھی سامنے آنا چاہیے، اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے اور ملوث لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: 'قومی اداروں پر حملے روکنے کیلئے طاقت کا بھرپور استعمال'

انہوں نے ان خبروں کی تردید کی جن میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کو توسیع دی جارہی ہے یا پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنانے کا فیصلہ ہوچکا ہے، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے دورہ لندن سے متعلق خبر میرے علم میں نہیں۔

پرویز مشرف کے دور حکومت میں فوج پر تنقید سے متعلق سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت ایک سیاسی حکومت تھی جس کا سربراہ ایک وردی والا شخص تھا، ہم اپوزیشن میں تھے، قصور اس شخص تھا جس نے اپنے ادارے کو اپنا حلقہ انتخاب بنا کر سیاست میں گھسیٹا۔

آنے والے مہینوں میں ملک میں مہنگائی میں کمی آئے گی، مفتاح اسمٰعیل

وفاقی وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسمٰعیل نے پریس کانفرنس میں کہا کہ موجودہ حکومت نے معیشت کو پائیدار اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے مشکل فیصلے کیے ہیں۔

سرکاری خبر رساں ادارے 'اے پی پی' کے مطابق انہوں نے کہا کہ سابق حکومت ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک پر کام کرتی تو بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا، آنے والے مہینوں میں ملک میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ اپریل میں ہمارے پاس ڈیڑہ ماہ کی درآمدات کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر تھے، مالیاتی ادارے ان ممالک کو قرضہ دیتے ہیں جن کے پاس کم سے کم تین ماہ کے زرمبادلہ کے ذخائر ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے معیشت کو پائیدار اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے مشکل فیصلے لیے،

انہوں نے کہا کہ جب بھی 4 فیصدسے زیادہ نمو ہوئی ہے اس سے حسابات جاریہ کے کھاتوں کا خسارہ بڑھ جاتا ہے، کیونکہ نمو کے ساتھ طلب میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ہماری درآمدات بھی بڑھ جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قوم کو پرانے طور طریقے بدل کر اپنے وسائل میں رہنا ہوگا، مفتاح اسمٰعیل

وزیر خزانہ نے کہا کہ معیشت کی صورتحال کے تناظر میں حکومت نے پرتعیش اشیا کی برآمد پر پابندیاں عائد کیں، ہم نے غیر ضروری پھل، اشیا، خوراک اور لگژری گاڑیوں کی درآمد پر پابندیاں لگائی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری درآمدات ملک میں آنے والی ترسیلات زر کے مساوی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، ملک میں برآمد کنندگان برآمدات کے حوالے سے مراعات تو مانگتے ہیں مگر اسی تناسب سے برآمدات نہیں ہوتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت برآمدات میں اضافے کے لیے سہولیات اور ترغیبات دے رہی ہے۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ملک میں وسیع پیمانے پر نقصان ہوا ہے، سیلاب سے کپاس کی فصل کو نقصان ہوا ہے، اسی طرح پیاز، ٹماٹر، گنے اور چینی کی فصلیں بھی تباہ ہوگئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لیے اس کی درآمد پر ٹیکسوں میں رعایتیں دی ہیں، اس وقت افغانستان اور چین سے سبزیاں آرہی ہیں مگر ظاہر ہے کہ اس پر بھی ہمارا زرمبادلہ صرف ہو رہا ہے.

مزید پڑھیں: 2 ماہ میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرکے مہنگائی پر قابو پالیں گے، وزیر خزانہ

ان کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کی بچت کے لیے حکومت نے پرتعیش اشیا کی درآمد پر پابندیاں عائد کی تھیں، ایک مرتبہ جب ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے تو معاملات میں بہتری آئے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، سیلاب کے بعد اور اس سے پہلے بھی مہنگائی تھی، مہنگائی عالمگیر معاملہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں یوکرین بحران کے بعد اشیائے خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس سے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے، پاکستان میں بنیادی مہنگائی (کور انفلیشن) میں گزشتہ چند ماہ سے کمی آرہی ہے، اس وقت بنیادی افراط زر 13 سے لے کر 14 فیصد تک کی سطح پر ہے، اسے 8 سے 9 فیصد تک کی سطح پر ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت سے درآمدات کا فیصلہ 'اسٹیک ہولڈرز' کی مشاورت سے کیا جائےگا، وزیر خزانہ

وزیرخزانہ نے کہا کہ سابق حکومت نے بجلی کے ترسیلی اور تقسیمی نظام پر توجہ نہیں دی، اس کے ساتھ ساتھ سابق حکومت نے بجلی اور توانائی کی قیمتوں کو مصنوعی بنیادوں پر رکھا جس سے مشکلات سامنے آئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے 200 سے لے کر 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سبسڈی دی ہے، اس حوالے سے میں نے آئی ایم ایف سے بات کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر سابق حکومت ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک پر کام کرتی تو بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا۔

خاتون جج کو دھمکانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، عمران خان کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیا جواب

ایشیا کپ: سری لنکا نے بھارت کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی

اسلامی اقدار سے متصادم مواد نشر کرنے پر خلیجی ممالک کا ’نیٹ فلکس‘ کو انتباہ