پاکستان

ایران، افغانستان سے خوراک کی درآمد کے لیے ڈالر کی قلت کا سامنا

افغانستان، ایران سے درآمدات کے باعث ڈالر کی اسمگلنگ کی حوصلہ افزائی ہوئی اور بلیک مارکیٹ کے کاروبار میں اضافہ ہوا، کرنسی ڈیلرز

افغانستان اور ایران سے خوراک، خاص طور پر سبزیوں کی درآمد کرنے والے تاجر بینکوں یا ایکسچینج کمپنیوں سے ڈالر خریدنے کی اجازت نہ دیے جانے کے باعث ادائیگیوں کے لیے بلیک مارکیٹ پر انحصار کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے فصلوں کی تباہی کے بعد ملک کو ٹماٹر، پیاز، آلو وغیرہ کی شدید قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں ان اشیا کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور فصلوں کے تباہ ہونے کے باعث پیدا ہونے والے طلب اور رسد کے فرق کو ختم کرنے کے لیے حکومت فوری طور پر پڑوسی ممالک سے ان اشیائے خورونوش کی درآمد کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئی، لیکن اس نے ان درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے ڈالر کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: درآمدات کے باوجود ٹماٹر، پیاز کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں

یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ درآمد کنندگان سے کہا گیا کہ وہ افغان اور ایرانی تاجروں کو پاکستان میں دستیاب غذائی اشیا برآمد کرکے بارٹر ڈیل کے تحت درآمدات کریں۔

پشاور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کابل کے ساتھ مقامی کرنسی کے ذریعے درآمدی سودے ممکن ہیں کیونکہ افغان شہری خیبر پختونخوا میں موجود ہیں۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان برآمد کنندگان عام طور پر امریکی ڈالر طلب کرتے ہیں، نقد رقم یا دبئی کے ذریعے ادائیگی کرنے پر اصرار کرتے ہیں، دبئی سے کی جانے والی ادائیگیوں کے لیے ہنڈی یا حوالہ کا نظام استعمال کیا جاتا ہے۔

معروف کرنسی ڈیلر ملک بوستان نے کہا کہ زیادہ تر درآمد کنندگان افغان فروخت کنندگان کو نقد ڈالر یا دبئی کے ذریعے ادائیگی کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ستمبر میں بھی مہنگائی بڑھ کر 9فیصد تک پہنچ گئی

ملک بوستان نے وضاحت کی کہ حکومت نے کابل سے درآمدات کے لیے ڈالر کا بندوبست نہیں کیا جب کہ درآمد کنندگان کو ایکسچینج کمپنیوں یا بینکنگ چینلز سے ڈالر خریدنے سے بھی روک دیا گیا ہے، یہی معاملہ ایران اور افغانستان دونوں ممالک کے ساتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں صورتوں میں پاکستان سے ڈالر بیرون ملک بھیجے جارہے ہیں جب کہ ہمیں ان کی سخت ضرورت ہے۔

کرنسی ڈیلر ظفر پراچا نے کہا کہ افغان کرنسی صرف پشاور میں دستیاب ہے جہاں کرنسی کی تبدیلی، پاکستانی اور افغانی کرنسی میں خرید و فروخت ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغان برآمد کنندگان پاکستانی روپے میں اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب کہ مقامی کرنسی روزانہ کی بنیاد پر گراوٹ کا شکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 2020 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح دنیا میں بلند ترین نہیں، اسٹیٹ بینک کی وضاحت

ظفر پراچا نے کہا کہ ایران اور افغانستان سے درآمدات کے لیے ڈالر فراہم نہ کرنا حکومت کا غیر منطقی فیصلہ ہے جب کہ روپے کی قدر میں کمی اب معمول کی بات بن چکی ہے۔

کراچی میں ایکسچینج کمپنیوں کا کہنا ہے کہ افغان کرنسی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے جب کہ اس کی قیمت خطے میں سب سے زیادہ ہے، ایک امریکی ڈالر 88 افغانی کے برابر ہے جو پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

افغان حکومت اعلیٰ شرح تبادلہ برقرار رکھ سکتی ہے جب کہ کابل کوئلہ، کچھ پھل اور سبزیوں جیسی صرف چند اشیا برآمد کرتا ہے۔

ایک باقاعدہ بارٹر سسٹم دستیاب ہونے کی وجہ سے تہران سے درآمدات کے لیے نقد ڈالر میں صرف کچھ ادائیگیوں کی ضرورت ہوگی لیکن روپے میں نہیں۔

کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ افغانستان اور ایران سے درآمدات کے باعث ڈالر کی اسمگلنگ کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور اس صورتحال کے باعث بلیک مارکیٹ کے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔

ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے

ہمایوں سعید کے پاس نہ تو آواز ہے اور نہ ہی اچھے کردار، فردوس جمال

ورلڈ کپ سے قبل انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم سے سیریز خوشی کی بات ہے، شان مسعود