نقطہ نظر

سیٹلائٹ انٹرنیٹ: ضرورت یا عیاشی؟

سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے متعلق ادارے رفتار بڑھانے پر مسلسل کام کررہے ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ رفتار آج کی نسبت کہیں زیادہ ہوجائے گی،

’انٹرنیٹ تو انٹرنیٹ ہوتا ہے، چاہے کیبل والا ہو، موبائل والا یا پھر سیٹلائٹ والا‘۔ اگر بلاگ کا عنوان پڑھ کر آپ یہ سوچ رہے ہیں تو کچھ غلط نہیں کررہے۔

لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ آج انٹرنیٹ کی جتنی ترقی ہم اپنے اطراف میں دیکھ رہے ہیں (جس کا ایک بڑا حصہ ہماری ضرورت بھی بن چکا ہے) وہ برسوں پہلے ’امیروں کی عیاشی‘ سے شروع ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے آج 1100 ارب ڈالر سالانہ آمدنی دینے والی عالمی صنعت بن چکا ہے۔ (پاکستانی روپیوں میں اس رقم کا اندازہ لگانے کے لیے 1100 ارب کو 240 سے ضرب دے لیجیے، بخدا رال ٹپکنے لگے گی۔)

3 دہائیوں کے اس سفر میں انٹرنیٹ کئی تبدیلیوں سے روشناس اور ہمکنار ہوا ہے جن میں نت نئے پروٹوکولز سے لے کر طرح طرح کی ایسی جدید ٹیکنالوجیز (فنّیات) شامل ہیں کہ جن کا سرسری تذکرہ بھی ایک بھرپور انسائیکلوپیڈیا کا متقاضی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بیشتر باتوں کا معاملہ، عامۃ الناس کے لیے ’سر توں لنگھ گیا‘ (سر سے گزر گیا) جیسا ہوگا۔ البتہ انہی تبدیلیوں اور جدت طرازیوں کے طفیل نہ صرف انٹرنیٹ کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ آج انٹرنیٹ کی بدولت ایسا بہت کچھ ممکن ہوچکا ہے جس کا تصور بھی آج سے 30، 40 سال پہلے کسی کے ذہن میں نہیں تھا۔ (کم از کم عوام کی حد تک یہ بات درست ہے۔)

زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ایک انقلاب برپا کرنے والا یہ انٹرنیٹ آج ایک سنجیدہ عالمی کاروبار بن چکا ہے جبکہ انٹرنیٹ تک رسائی کو بنیادی انسانی حقوق میں بھی شامل کیا جاچکا ہے۔ سیٹلائٹ انٹرنیٹ بھی اسی انقلاب کا ایک حصہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جگہ بناتا جارہا ہے۔

آپ نے ’ڈش اینٹینا‘ تو دیکھا ہوگا اور شاید استعمال بھی کیا ہو۔ پرانے وقتوں میں (جب یہ ناچیز نوجوان تھا) ڈش اینٹینا بہت بڑے اور بھاری بھرکم ہوا کرتے تھے۔ پھر ’ڈیجیٹل ڈش اینٹینا‘ بھی آنے لگے۔ ان کی ڈش بہت چھوٹی (تقریباً 2 فٹ چوڑی اور 3 فٹ لمبی) اور کم وزن ہوتی ہے جسے کسی اپارٹمنٹ کی کھڑکی میں بھی آسانی سے لٹکایا جاسکتا ہے (سیٹلائٹ کے رُخ پر)۔ کم جسامت اور کم وزن ہونے کے باوجود، ایک ڈیجیٹل ڈش بیک وقت سیکڑوں چینلز وصول کرسکتی ہے اور اپنے صارفین کو ایک وسیع انتخاب فراہم کرتی ہے۔

خیر، سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی بنیادی ٹیکنالوجی وہی ہے جو ڈیجیٹل ڈش اینٹینا میں استعمال ہوتی ہے۔ البتہ دونوں میں کچھ فرق بھی ہے۔ سب سے پہلا اور اہم ترین فرق یہ ہے کہ ڈیجیٹل ڈش سے صرف سیٹلائٹ کے سگنل وصول کیے جاسکتے ہیں جبکہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ والی ڈش نہ صرف سیٹلائٹ سگنل وصول کرسکتی ہے بلکہ سیٹلائٹ کو سگنل بھیج بھی سکتی ہے۔ قدرے تکنیکی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ روایتی ڈیجیٹل ڈش صرف ڈاؤن لنک کا کام کرتی ہے جبکہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ والی ڈش بیک وقت ڈاؤن لنک اور اپ لنک دونوں فراہم کرتی ہے۔

عام ڈیجیٹل ڈش کے ساتھ ایک سیٹ ٹاپ باکس (ڈی کوڈر) بھی ہوتا ہے جو سیٹلائٹ سے وصول کیے جانے والے سگنلز کو آواز اور تصویر میں تبدیل کرکے ٹیلی ویژن پر پیش کرتا ہے۔ سیٹلائٹ انٹرنیٹ ڈش کے ساتھ بھی ایسا ہی ایک ’ڈبہ‘ ہوتا ہے جسے ’سیٹلائٹ موڈیم‘ کہتے ہیں۔ اس کے ذمے دوہرا کام ہوتا ہے، یہ سیٹلائٹ سے موصول ہونے والے ڈیجیٹل سگنلز کو کمپیوٹر کے لیے قابلِ فہم (کمپیوٹر ریڈیبل) بناتا ہے اور کمپیوٹر سے انٹرنیٹ پر بھیجے گئے پیغامات کو سیٹلائٹ کے لیے قابلِ فہم بنا کر، ڈش کے ذریعے (سیٹلائٹ کی سمت) خلا میں بھیجتا ہے۔ بتاتے چلیں کہ تکنیکی اعتبار سے یہ بہت پیچیدہ عمل ہے جسے ہم نے آسان ترین الفاظ میں سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔

ڈائل اپ اور کیبل انٹرنیٹ کے لیے لمبے لمبے تار درکار ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے لیے صرف اتنے تار چاہیے ہوتے ہیں جو باہر (گھر کی چھت پر یا کھڑکی پر) نصب ڈیجیٹل ڈش (آؤٹ ڈور یونٹ) کو گھر میں رکھے ہوئے سیٹلائٹ موڈیم (اِن ڈور یونٹ) سے جوڑ سکیں اور ان دونوں کو حسبِ ضرورت بجلی فراہم کرسکیں۔

سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی خوبیاں اپنی جگہ لیکن بہرحال یہ ابھی اتنا تیز رفتار نہیں ہوا ہے کہ آپٹیکل فائبر اور کیبل وغیرہ کے ذریعے فراہم کیے جانے والے عام براڈ بینڈ انٹرنیٹ کا مقابلہ کرسکے۔ روایتی (براڈ بینڈ) انٹرنیٹ میں ڈاؤن لوڈنگ کی اوسط عالمی رفتار 64.7 میگا بائٹس فی سیکنڈ، جبکہ اپ لوڈنگ اسپیڈ 28.5 میگا بائٹس فی سیکنڈ ہے۔

یہ اعداد و شمار سامنے رکھتے ہوئے جب سیٹلائٹ انٹرنیٹ کا سرسری جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان سروسز میں ڈاؤن لوڈنگ کی رفتار 25 میگا بائٹس فی سیکنڈ سے 500 میگا بائٹس تک، جبکہ اپ لوڈنگ کی رفتار صرف 2 میگا بائٹس فی سیکنڈ سے 40 میگا بائٹس فی سیکنڈ تک بتائی گئی ہے۔ تاہم یہ تشہیری قسم کی معلومات ہیں اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی حقیقی رفتار اس سے بہت کم ہوسکتی ہے۔

سیٹلائٹ انٹرنیٹ سے تعلق رکھنے والے ادارے یہ رفتار بڑھانے پر مسلسل کام کررہے ہیں اور توقع ہے کہ آئندہ چند برسوں میں یہ رفتار آج کی نسبت کہیں زیادہ ہوجائے گی، لیکن تب تک روایتی انٹرنیٹ کی اوسط رفتار بھی آج سے زیادہ ہوچکی ہوگی۔

ہمارے موازنے کا دوسرا پہلو سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی لاگت سے تعلق رکھتا ہے۔

پاکستان میں روایتی براڈ بینڈ انٹرنیٹ کنیکشن کی تنصیب پر ابتدائی اخراجات کا تخمینہ 3 سے 4 ہزار روپے کے درمیان ہے جبکہ ماہانہ اخراجات بھی ایک ہزار سے 5 ہزار روپے تک ہوسکتے ہیں۔ تجارتی/ کاروباری (کمرشل) مقاصد کے لیے ابتدائی خرچ لاکھوں میں پہنچ سکتا ہے (جس کا انحصار اس ادارے میں انٹرنیٹ کی ضرورت پر ہے) جبکہ ماہانہ اخراجات بھی اسی تناسب سے ایک لاکھ یا 2 لاکھ روپے ہوسکتے ہیں۔

ایک عام صارف کے لیے سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس حاصل کرنے کا کم سے کم ابتدائی خرچ 45 ڈالر سے 300 ڈالر (تقریباً 11 ہزار سے 72 ہزار پاکستانی روپے) تک ہوسکتا ہے جبکہ ماہانہ اخراجات کا تخمینہ 65 سے 400 ڈالر (تقریباً 16 ہزار سے 96 ہزار پاکستانی روپے) کے درمیان ہے۔

ظاہر ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی اتنی زیادہ لاگت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا (شوقین مزاج مالداروں کو ہم مستثنیات میں شامل کررہے ہیں)۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ اگر آنے والے چند برسوں میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی لاگت کم ہوتے ہوتے موجودہ مالیت کا صرف دس فیصد رہ جائے تو شاید اسے ہمارے ہاں بھی مقبولیت حاصل ہوجائے۔

پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کا مقصد شہری اور آباد علاقوں تک انٹرنیٹ کی فراہمی ہرگز نہیں، بلکہ اسے ان علاقوں کے لیے وضع کیا گیا ہے جہاں تکنیکی، مالیاتی یا سیاسی وجوہ کی بناء پر روایتی (تار والے) یا موبائل انٹرنیٹ تک رسائی ممکن نہ ہو۔ اس پورے موازنے میں شاید یہی وہ واحد نکتہ ہے جہاں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کو روایتی انٹرنیٹ پر برتری حاصل ہوجاتی ہے۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ انٹرنیٹ آج ہر خاص و عام کی ضرورت بن چکا ہے لیکن سیٹلائٹ انٹرنیٹ، سرِدست، ہمارے لیے صرف ایک عیاشی ہے۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، ہمارے لیے تو انٹرنیٹ بجائے خود ’تفریح‘ کا ایک ذریعہ ہے۔ پاکستانیوں کی بہت کم تعداد اس انقلاب سے صحیح معنوں میں مستفید ہورہی ہے اور اپنا حال بہتر بناتے ہوئے، خوب تر مستقبل کی جستجو میں مصروف ہے۔

خیر، جانے دیجیے۔ ٹیکنالوجی کی اخلاقیات اور انٹرنیٹ کی سماجیات ہمارے اس بلاگ کا موضوع نہیں، لہٰذا آگے بڑھتے ہیں۔

چند روز قبل ایک پاکستانی انگریزی اخبار نے ’روایتی انٹرنیٹ صنعت تباہ ہونے والی ہے؟‘ کے عنوان سے ایک تحریر شائع کی۔ عنوان کے برعکس، پوری تحریر میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی مشہور کمپنی ’اسٹار لنک‘ کی شان میں آسمان اور زمین کے قلابے ملائے گئے تھے۔ اپنے اسی ’پھڑک دار‘ عنوان کی وجہ سے یار لوگوں نے (حسبِ عادت، پوری تحریر پڑھے بغیر) اسے سوشل میڈیا پر خوب شیئر کیا اور یہ ’انکشاف‘ کسی وائرس کی طرح ’وائرل‘ ہوگیا۔ (آپ خواہ مخواہ اردو میڈیا والوں پر سنسنی خیزی کا الزام لگاتے ہیں۔ دیکھ لیجیے، انگریزی میڈیا والے بھی کچھ کم نہیں)۔

واقعہ یہ ہے کہ امریکی کمپنی اسٹار لنک اپنی سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس پوری دنیا میں پھیلانا چاہتی ہے، جس کے لیے وہ مختلف ممالک میں ٹیلی کمیونیکیشن کے مجاز سرکاری اداروں سے بات چیت کررہی ہے (ان میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یعنی ’پی ٹی اے‘ بھی شامل ہے)۔

پی ٹی اے حکام کے ساتھ اسٹار لنک کے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے، جس کے بعد انہوں نے دوبارہ رابطہ بھی نہیں کیا۔ البتہ، پی ٹی اے نے اسٹار لنک کو تنبیہ کی کہ جب تک منظوری نہ مل جائے، وہ اپنی ویب سائٹ پر پاکستانی صارفین سے پیشگی رقم وصول نہ کریں۔ تب سے اب تک اسٹار لنک کی ویب سائٹ پر پاکستان کے لیے سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی ایڈوانس بکنگ زیرِ التوا ہے۔

برسبیلِ تذکرہ بتاتے چلیں کہ براڈ بینڈ انٹرنیٹ فراہم کرنے کے قابل، دنیا کا پہلا مواصلاتی سیارچہ (کمیونیکیشن سیٹلائٹ) ’یوٹیل سیٹ‘ نامی ادارے نے ستمبر 2003ء میں مدار میں بھیجا تھا لیکن سیٹلائٹ انٹرنیٹ اور انٹرنیٹ سیٹلائٹ کو زیادہ مقبولیت حالیہ برسوں میں ایلون مسک صاحب کی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنی ’اسٹار لنک‘ کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ (24 ستمبر 2022ء تک) اس کمپنی کی تقریباً 3 ہزار انٹرنیٹ سیٹلائٹس، خلا میں پہنچائے جاچکے ہیں جن میں سے لگ بھگ ڈھائی ہزار سیارچے فعال ہیں جبکہ مزید 500 اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے والے ہیں۔

البتہ امریکا میں اسٹار لنک سے بہت پہلے ہی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کا آغاز ہوچکا تھا۔ آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ امریکی کمپنی ’ہیوز نیٹ‘ نے 1996ء ہی سے امریکا میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنا شروع کردی تھی لیکن وہ بہت سُست رفتار اور محدود پیمانے پر دستیاب تھی۔ اس ادارے نے 2012ء سے براڈ بینڈ سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس کا آغاز کیا جبکہ اسی سال ایک اور امریکی کمپنی ’وائیاسیٹ‘ بھی اس میدان میں اتر آئی۔ فی الحال ان دونوں کے انٹرنیٹ سیٹلائٹس کی تعداد بہت کم ہے لیکن ہیوز نیٹ نے پچھلے سال امریکی حکومت سے ایک درخواست منظور کروائی تھی جس کے تحت وہ اگلے چند برسوں میں 1600 انٹرنیٹ سیٹلائٹس کو خلا میں بھیجے گی۔

ادھر ایلون مسک صاحب کا منصوبہ ہے کہ 2023ء تک اسٹار لنک کے 4 ہزار 400 انٹرنیٹ سیٹلائٹس کو ان کے مطلوبہ مداروں میں پہنچا دیا جائے جس کے بعد ساری دنیا میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کا حصول آسان اور آج کی نسبت خاصا کم خرچ ہوجائے گا۔

سیٹلائٹ انٹرنیٹ میں بھی مقابلہ بڑھتا جارہا ہے۔ ایمازون نے حال ہی میں اپنے ’پروجیکٹ کوپر‘ کا اعلان کیا ہے جس میں 5 ہزار کے لگ بھگ انٹرنیٹ سیٹلائٹس ہوں گے۔ (یہ منصوبہ کب شروع ہوگا اور کب تک مکمل ہوگا؟ سرِدست اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔)

ان سب کے علاوہ کئی امریکی اور یورپی کمپنیاں بھی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے میدان میں اترنے پر غور کررہی ہیں۔ شنید ہے کہ ہندوستان میں بھی خلا سے انٹرنیٹ کا آغاز بہت جلد ہوجائے گا (امریکی اور کینیڈین اداروں کے تعاون سے)۔ مسابقت اور دستیابی بڑھنے کے ساتھ ساتھ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی قیمت بھی یقیناً بتدریج کم ہوتی جائے گی اور کوئی بعید نہیں کہ صرف چند سال بعد ہی امیروں کی یہ عیاشی، غریبوں کے لیے کم خرچ سہولت بن جائے۔ امکانات کی دنیا بہت وسیع ہے، ہماری سوچ سے بھی زیادہ۔

اگر یہ باتیں آپ کو دُور کی کوڑی محسوس ہورہی ہیں تو یاد رکھیے کہ 1994ء میں ایک پاکستانی کے لیے ای میل بھیجنا بھی کسی مہنگی دردِ سری سے کم نہ تھا اور آج پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 8 کروڑ 30 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جن کی اکثریت متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔

آنے والے وقت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن شاید روایتی انٹرنیٹ کا خاتمہ نہ ہو، کیونکہ اس میں بہت سی ایسی خوبیاں ہیں (جن کا تذکرہ کیا جاچکا ہے) جو اسے ایک بہتر اور کم خرچ انتخاب بناتی ہیں۔

یہ تو ہوسکتا ہے کہ روایتی اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کرتے ہوئے، اپنی اپنی راہ چلتے رہیں لیکن شاید ان میں سے کوئی بھی دوسرے کو مکمل طور پر ختم کرنے کی شعوری کوشش نہ کرے۔ ارے بھئی ظاہر ہے کہ جس کاروبار میں کھرب ہا کھرب ڈالر سرمایہ لگا ہو وہ اتنی آسانی سے تو ختم نہیں ہوگا ناں!


بلاگر کا شمار پاکستان کے سینئر ترین سائنسی صحافیوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے سائنسی صحافتی سفر کا آغاز 1987ء میں کیا۔ اس دشت کی سیاحی آج تک جاری ہے۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’سائنس، فراڈ اور دھوکہ‘ ہے جو اگست 2021ء میں شائع ہوئی ہے۔

علیم احمد

علیم احمد نے 1987ء میں اردو ماہنامہ ’ سائنس میگزین’سے سائنسی صحافت کا آغاز کیا اور 1991ء میں اسی جریدے کے مدیر مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ریڈیو پروگرام’سائنس کلب’سے وابستہ رہے۔ 1997ء میں’سائنس ڈائجسٹ’کے مدیر کی ذمہ داری سنبھالی اور 1998ء میں ماہنامہ ’ گلوبل سائنس’شروع کیا، جو 2016ء تک جاری رہا۔ آپ کی حالیہ تصنیف’سائنسی صحافت: ایک غیر نصابی، عملی رہنما ’ ہے جو اردو زبان میں سائنسی صحافت کے موضوع پر پہلی کتاب بھی ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔